اٹارنی جنرل آفس کا عدالتوں میں ٹیکس معاملات میں قانونی ٹیموں کی ناقص کارکردگی پر چیئرمین ایف بی آر کو خط

خط میں بورڈکے وکیلوں کی جانب سے ریونیو سے متعلق معاملات کو غلط طریقے سے چلانے یا اس میں برتی جانے والی بدانتظامی کی نشاندہی کی گئی ہے.رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 10 مئی 2024 14:59

اٹارنی جنرل آفس کا عدالتوں میں ٹیکس معاملات میں قانونی ٹیموں کی ناقص ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10مئی۔2024 ) اٹارنی جنرل آفس نے عدالتوں میں ٹیکس محکمہ کی قانونی ٹیموں کی ناقص کارکردگی پر چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو خط لکھا ہے جس میں بورڈ کے وکیلوں کی جانب سے ریونیو سے متعلق معاملات کو غلط طریقے سے چلانے یا اس میں برتی جانے والی بدانتظامی کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا ہے.

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل آفس کے خط میں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ جب ایف بی آر کے خلاف ریونیو کے معاملات کا فیصلہ اپیلٹ ٹربیونلز کی سطح پر کیا جاتا ہے تو بیورو کی قانونی ٹیم فوری طور پر عدالتوں میں فیصلوں کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں دائر نہیں کرتی یہاں تک کہ اگر نظر ثانی کی درخواست دائر کر بھی دی جائے تو بیورو کے قانونی نمائندے مہینوں تک ٹربیونلز کے فیصلوں کے خلاف حکم امتناعی حاصل کرنے میں کوئی عجلت نہیں دکھاتے ہیں.

خط میں کہا گیا کہ متعدد معاملات میں ایف بی آر کے نمائندے نوٹسز کے باوجود عدالتوں میں پیش نہ ہو کر بینچز کو ناراض کرتے ہیں، اس سے معاملے کے فیصلے میں بھی تاخیر ہوتی ہے کیونکہ ججوں کے ذریعہ حکم امتناعی جاری کیا جاتا ہے اٹارنی جنرل پاکستان آفس نے 2 مئی کو کراچی میں ایک ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) سے موصول ہونے والے 3 صفحات پر مشتمل خط کو بھی منسلک کیا جس میں زیر التوا ٹیکس اور محصولات کے معاملات کو جلد نمٹانے کی درخواست کی گئی تھی.

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اپنے خط میں دعویٰ کیا کہ درآمد کنندگان اور ٹیکس دہندگان ایف بی آر کی قانونی ٹیموں کی سستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹربیونلز کے ان کے حق میں دی گئے فیصلے کی تعمیل کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں فوری درخواستیں دائر کردیتے ہیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے خط کے مطابق اس طرح عدالتوں کے پاس قانون کے مطابق تعمیل کا حکم دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا ہے.

انگریزی جریدے کے مطابق اٹارنی جنرل آفس نے ایف بی آر کے چیئرمین سے درخواست کی کہ وہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے ایک اہلکار کو نامزد کریں اور مقدمات کو موثر طریقے سے نمٹانے کے لیے عدالتوں میں ان کی مدد کریں خط میں تجویز کیا گیا کہ ایف بی آر کی فیلڈ فارمیشنز اور محکموں کو ہدایت کی جائے کہ وہ آخری دن کا انتظار کیے بغیر اپیلیں دائر کریں اور ٹربیونلز کے منفی فیصلوں کو معطل کرنے کے لیے فوری اسٹے درخواستیں دائر کریں خط میں واضح کیا گیا کہ ایسے معاملات میں جہاں مختلف فریقین کی جانب سے یکساں درخواستیں دائر کی گئیں ہیں وہاں ایف بی آر کی فیلڈ فارمیشنز اور محکمے مختلف وکلا کو شامل کرلیتے ہیں جن کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہوتا ہے اس صورت حال کا نتیجہ مکمل تناﺅ کی صورت میں نکلتا ہے اور مقدمات کسی نہ کسی وجہ سے بار بار ملتوی ہونے کی وجہ سے التوا کا شکار رہتے ہیں اوراس طرح کے حالات نہ صرف ججوں کو پریشان کرتے ہیں بلکہ سرکاری خزانے پر بھی بوجھ ڈالتے ہیں کیونکہ ایک جیسے کیسز میں الگ الگ وکلا کو اضافی فیس ادا کی جاتی ہے.

خط میں تجویز کیا گیا کہ بیورو اسی طرح کے تمام معاملات میں ایک سینئر وکیل کو شامل کرے اور محکمانہ جواب صرف لیڈ پٹیشنز میں داخل کیا جائے جسے دیگر تمام متعلقہ معاملات میں اپنائے جانا چاہیے تاکہ مقدمات کا جلد فیصلہ کیا جائے، خط میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کے مختلف محکمے کاپی فراہم کیے بغیر براہ راست عدالتوں میں جواب داخل کروادیتے ہیں اس وجہ سے کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل اٹارنی جنرلز اور ڈپٹی اٹارنی جنرلز (ڈی اے جی) ایف بی آر کے مو¿قف کے بارے میں بالکل بے خبر ہوتے ہیں اور عدالت کی مدد کرنے سے قاصر رہتے ہیں، خاص طور پر حقائق پر مبنی معاملات پر خط میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ جب کوئی معاملہ 2 یا 2 سے زیادہ وزارتوں سے متعلق ہوں تو پراپرائٹری مطالبہ کرتا ہے کہ ہر وزارت کی جانب سے دائر کیے گئے تبصروں میں کوئی متضاد موقف نہیں ہونا چاہیے لیکن متضاد موقف اختیار کرتے ہوئے متعدد چھوٹی درخواستیں دائر کردی جاتی ہیں، خط میں کہا گیا کہ اس طرح کے حالات نہ صرف ججوں کو پریشان کرتے ہیں، بلکہ عدالتی معاونت فراہم کرنے والے اٹارنی جنرل آفس کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتے ہیں.

خط میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ بہت سے معاملات میں تجربہ کار وکلا کی خدمات کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور ان کی فیس پر رقم خرچ نہیں کی جانی چاہیے، ایسے معاملات سے اٹارنی جنرل آفس اور محکمہ کے نمائندوں کی مدد سے آسانی سے نمٹا جا سکتا ہے خط میں تجویز دی گئی کہ ایف بی آر گریڈ 18 یا اس سے اوپر کے افسران کو باقاعدگی سے عدالتوں میں پیش ہونے کے لیے تعینات کرے تاکہ زیر التوا مقدمات کے بروقت جوابات کو یقینی بنایا جا سکے.

خط میں کہا گیا ہے کہ افسران کی مدد سے زیادہ تر درخواستوں میں رسمی وکلا کی شمولیت کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی اور عدالتوں میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل/ڈپٹی اٹارنی جنرل کی مدد سے نمٹا جاسکے گا واضح رہے کہ یہ خط اس وقت منظر عام پر آیا جب ایف بی آر نے ایک سینئر افسر کو معطل کرنے پر رضامندی ظاہر کی جس نے سندھ ہائی کورٹ میں 45.6 کروڑ روپے کی ٹیکس ادائیگیوں سے متعلق کیس میں التوا کا مطالبہ کیا تھا اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وزیراعظم نے متعدد بار زیر التوا ٹیکس کیسز پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور ایف بی آر کو کارروائی تیز کرنے کا حکم دیا ہے.