فرٹیلائزر انڈسٹری اور کسان زائد پیداواری لاگت کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں‘ ایف ایم پی اے سی

کھاد کی صنعت کے شراکت دار ،کسانوں کا کھاد تیار کرنیوالوں کو فراہم کی جانیوالی گیس پر عائد گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی بلند شرح کی وجہ سے زائد پیداواری لاگت کے باعث طویل المدت اقتصادی اثرات پر تشویش کا اظہار

بدھ 28 فروری 2018 17:10

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 فروری2018ء) کھاد کی صنعت کے شراکت دار اور کسانوں نے کھاد تیار کرنے والوں کو فراہم کی جانے والی گیس پر عائد گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کی بلند شرح کی وجہ سے زائد پیداواری لاگت کے باعث طویل المدت اقتصادی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، یہ ضروری شعبہ دیگر تمام صنعتوں کے مقابلے میں جی آئی ڈی سی کی بلند شرح کے باعث زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔

فرٹیلائزر مینوفیکچررز آف پاکستان ایڈوائزری کونسل (ایف ایم پی اے سی) کے بیان کے مطابق امتیازی ٹیکسوں کے نظام نے اس شعبے پر غیر ضروری مالیاتی دبائو میں اضافہ کیا ہے۔ جی آئی ڈی سی کی بلند شرح کے باعث مینوفیکچرنگ لاگت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مینوفیکچررز قانونی پابندیوں کے باعث اپنی ریٹیل قیمتوں میں اضافہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

کھاد کی صنعت ان اضافی لاگتوں کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ سالہا سال سے حکومت پاکستان اس سیس کے ذریعے کھاد کی صنعت کو بحران کا شکار کر رہی ہے۔ یہ سیس مختلف صنعتوں پر 2010ء میں نافذ کیا گیا تھا جس کا مقصد ہر شعبہ کو قدرتی گیس کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانا تھا لیکن بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ سمیت سپریم کورٹ کی جانب سے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا گیا۔

موجودہ جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015ء میں منظور کیا گیا تھا لیکن یہ موزوں نہ ہونے کی وجہ سے متنازعہ رہا اور یہ حکومتی پالیسیوں کے بھی خلاف ہے جن کا مقصد زرعی پیداوار کیلئے سہولیات فراہم کرنا ہے جو کہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جی آئی ڈی سی بل 2015ء قومی اسمبلی کی جانب سے منظور کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’سیس‘‘ کی جانب سے حاصل کیا جانے والا ریونیو حکومت گیس انفراسٹرکچر کی ترقی کے لئے استعمال کرے گی جس میں ایل این جی کی درآمد اور بڑے قومی منصوبے شامل ہیں۔

جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015ء کے دوسرے شیڈول جس پر حکومت کی جانب سے بعد ازاں نظرثانی کی گئی، کے مطابق کھاد کی صنعت پر جی آئی ڈی سی کے نفاذ کی زیادہ سے زیادہ شرح فرٹیلائزر فیڈ کیلئے استعمال شدہ گیس کے ہر ایم ایم بی ٹی یو پر 300 روپے ہے جبکہ کھاد کی پیداوار کے دوران استعمال کے لئے فیول گیس پر جی آئی ڈی سی کی قیمت 150 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔ جی آئی ڈی سی کے اثرات نے بین الاقوامی کھاد پروڈیوسرز کے مقابلے میں پاکستان میں کھاد کی صنعت کے لئے گیس کی قیمتوں کو دو گنا کر دیا ہے۔

پاکستان فرٹیلائزر مینوفیکچررز جی آئی ڈی سی کے کم قیمت کے ساتھ ٹیکس ریلیف کے مستحق ہیں کیونکہ وہ ملکی گیس کے ذخائر کا زیادہ حصہ استعمال کرتے ہیں۔ قدرتی گیس کے بڑے صارفین ہونے کی حیثیت سے وہ کھاد کی پیداوار کے لئے گیس کو بنیادی خام مال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اپنی فیکٹریوں کو ایندھن کی فراہمی کیلئے گیس نہیں جلاتے۔ حکومت کو اس شعبہ کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ ملک میں زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لئے اس کے کردار کو تسلیم کرنا چاہئے۔

پاکستان خوراک کی اشیاء اور زرعی پیداوار کی بڑی مقدار میں برآمد کرتا ہے لہذا ملکی اور بین الاقوامی سطح پر فوڈ سیکورٹی کو بہتر بنانے کے لئے اس صنعت پر ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنا چاہئے۔ کھاد کی صنعت کو دی گئی سبسڈی حقیقی طور پر کسانوں اور مینوفیکچررز کیلئے ناکافی ہے۔ صنعت سستی کھاد کیلئے حکومتی اقدمات میں تعاون کرتے ہوئے اضافی مالیاتی بوجھ برداشت کر رہی ہے۔

اگر اس اہم صنعت پر بوجھ کیلئے یہ غیر منصفانہ پالیسی جاری رہتی ہے تو اس سے عوام کی خوشحالی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ماڑی گیس فیلڈ میں کھاد بنانے والے کارخانے کمپریشن اور ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور پائیدار پیداوار کے حصول کے لئے سرگرداں ہیں لیکن گیس پریشر مسلسل کم ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔

اس حوالے سے جو اخراجات کرنے پڑتے ہیں ان پر ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل کے صارفین کی طرح ان کارخانوں کو بھی کوئی رعایت نہیں دی جا رہی۔سیس کا مقصد گیس سپلائی کو یقینی بنانا بتایا گیا تھا لیکن بھاری ٹیکس دینے والی کھاد کی کمپنیوں کو کئی سالوں سے گیس سپلائی میں تعطل کا سامنا ہے۔ نیٹ ورک بیسڈ کمپنیوں کو اپنی تنصیبات کے لئے مناسب قیمت پر گیس فراہم نہیں کی جا رہی۔ ملک میں خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کو چاہئے کہ بین الاقوامی مسابقتی نرخوں پر کھاد بنانے والے کارخانوں کو گیس کی فراہمی یقینی بنائے۔ دریں اثناء جس مخصوص مقصد کے لئے ٹیکس وصول کیا جائے، اسے اسی مد میں شفافیت کے ساتھ استعمال کیا جائے۔

متعلقہ عنوان :