چشتیاں، محکمہ معدنیات کی آشیر بادسے چشتیاں کے 400ایکڑ زرعی رقبہ سے ریت نکال کر اسے ہمیشہ کیلئے مردہ کر دیا گیا

حکومت پنجاب کی بیڈ گورننس اور محکمہ معدنیات لیبرویلفیئر کمشنرپنجاب کی ملی بھگت کے نتیجہ میں چشتیاںسی15کلومیٹر دو ردریائے ستلج اور ملحقہ پانڈ ایریا سے ریت نکالنے کا عمل جاری ہے جبکہ چشتیاں شہری حدود کے قریب انتہائی زرخیز زرعی رقبہ سی40فٹ گہرائی تک ریت نکال کرزرعی رقبہ کو مردہ بنانے کا وطن دشمن دھندہ جاری ہے

جمعرات 26 اپریل 2018 22:21

چشتیاں (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 اپریل2018ء) حکومت پنجاب کی بیڈ گورننس اور محکمہ معدنیات لیبرویلفیئر کمشنرپنجاب کی ملی بھگت کے نتیجہ میں چشتیاںسی15کلومیٹر دو ردریائے ستلج اور ملحقہ پانڈ ایریا سے ریت نکالنے کی بجائے چشتیاں شہری حدود کے قریب انتہائی زرخیز زرعی رقبہ سی40فٹ گہرائی تک ریت نکال کرزرعی رقبہ کو مردہ بنانے کا وطن دشمن دھندہ جاری ہے۔

جبکہ محکمہ معدنیات کی آشیر بادسے چشتیاں کے 400ایکڑ زرعی رقبہ سے ریت نکال کر اسے ہمیشہ کیلئے مردہ بنایا جاچکاہے۔زمینداروں،کسانوں وعوامی حلقوں کی درخواستوں اور میڈیا کے ذریعے حقائق منظرعام پر لانے کے باوجود پنجاب حکومت،متعلقہ محکمہ معدنیات وانتظامیہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔اس طرح انتہائی زرخیز زرعی رقبہ کو مردہ بنانے کا عمل جاری ہے۔

(جاری ہے)

چشتیاں کے زمینداروں ویونین کونسل84 ڈاہرانوالہ چشتیاں کے چیئرمین میاں عمیر رفیع۔وائس چیئرمین چوہدری شاہدسرور نے چیف جسٹس آف پاکستان اورچیئرمین نیب کو لکھی گئی درخواست میں کہا ہے کہ چشتیاں کے علاقوںموضع سوڈھا بستی، ٹبہ ٹینکی،چک چوپہ کے انتہائی زرخیز زرعی رقبوں سے ریت نکال کرانتہائی مہنگے داموں فروخت کرنے کے علاوہ دوسرے ہمسایہ رقبہ کے مالک اور دیگر کسانوں کیلئے خطرناک صورتحال پیدا کردی جاتی ہے اور قریبی پختہ سڑک سے زرعی اجناس سے لدی ٹریکٹر ٹرالیوں کی50فٹ گہری کھائی میں گرنے کے خطرے کے پیش نظر دودراز کا سفرطے کرنا پڑتاہے۔

اس طرح کسانوں کو بلیک میل کرکے ریت فروخت نکالنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ چشتیاں کے تقریباً400ایکڑزرعی رقبہ جہاں ہر سال 30ہزارمن گندم اور ہزاروں من دیگر زرعی اجناس کی پیداوار حاصل ہوتی تھی اب وہاں ہو کا عالم طاری ہے۔جو کہ سخت قومی نقصان ہے جس کا ازالہ ناممکن ہے۔محکمہ کا ٹھیکیدار متعلقہ محکمہ کے افسران واہلکاران کی ملی بھگت سی300مکعب فٹ کی ریت کی ٹرالی کی مقررہ قیمت1650/-روپے کی بجائے مبینہ طورپر8000/- روپے میں فروخت کرکے بلیک مارکیٹنگ کا ریکارڈ قائم کررہا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریت صرف دریائے ستلج اور پانڈ ایریا کے علاقہ سے نکالنے کی پابندی پر عمل کرایا جائے۔