100روپے کے کارڈپر 40روپے کی ٹیکس کٹوتی،سپریم کورٹ ہر پاکستانی کی آواز بن گئی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 8 مئی 2018 11:32

100روپے کے کارڈپر 40روپے کی ٹیکس کٹوتی،سپریم کورٹ ہر پاکستانی کی آواز ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 08 مئی 2018ء) : سپریم کورٹ میں موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے زائد ٹیکس کٹوتی کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 4 رکنی بنچ نے کی۔ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کی سماعت میں تمام موبائل کمپنیوں سمیت چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت سمیت ایف بی آر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کس قانون کے تحت ود ہولڈنگ ٹیکس لیا جارہا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کا قانون امپرفیکٹ لگتا ہے۔ کیا اتنے ٹیکسز استحصال نہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ 100 روپے کا دیہاڑی دار جس پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کال کرنے سے پہلے ہی 42 فیصد ٹیکس کی مد میں کٹوتی ہو جاتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ وزیر خزانہ کو بھی بلائیں، چودہ کروڑ پاکستانیوں سے روزانہ اتنا ٹیکس کس کھاتے میں لیا جاتا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دوسرے ممالک میں کارڈ ریٹ کا ایک تقابلی جائزہ بھی پیش کریں۔

انہوں نے کہا کہ عوام سے پیسے ہتھیانے کا یہ ایک غیر قانونی طریقہ ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ دوسرے ممالک میں ٹیکس کی مد میں کتنی کٹوتی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ قانون بتائیں جس کے تحت سیلز ٹیکس لیا جاتا ہے جس پر عدالت میں موجود وکیل نے کہا کہ وفاقی علاقوں میں 17 فیصد جبکہ صوبوں میں 19 فیصد سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔

سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس نے ڈیزل پر ٹیکس سے متعلق نوٹس لینے کا عندیہ بھی دے دیا۔ عدالت نے تمام موبائل کمپنیوں سمیت چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت سمیت ایف بی آر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے زائد ٹیکس کٹوتی کے معاملے پر از خود نوٹس کیس کی مزید سماعت کو آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دیا۔ یاد رہے کہ 3 مئی کو موبائل کمپنیوں کی بے تحاشہ ٹیکس کٹوتیوں پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیاتھا ۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ 100روپے کے کارڈ میں سے چالیس روپے کاٹ لیے جاتے ہیں۔ موبائل کمپنیوں کی جانب سے یہ کٹوتی کیوں ہوتی ہے؟ اتنا ٹیکس کس قانون کے تحت اور کس مد میں کی لیا جاتا ہے؟ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اٹارنی جنرل کو کل تفصیلی جواب جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے تمام موبائل کمپنیوں کو نوٹسز بھی جاری کیے تھے۔