سینکڑوں کٹر جہادی جرمن پاسپورٹ کے حامل نکلے

جہادی شام،عراق میں دہشت گرد تنظیموں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں،جرمن سخت گیر مسلمانوں سزا دینے کے ساتھ ان کے بنیاد پرست نظریات کوتبدیل کرنے کی کوشش کی جائے،رپورٹ

پیر 21 مئی 2018 17:59

برلن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 مئی2018ء) سینکڑوںکٹر جہادی جرمن پاسپورٹ کے حامل ہیں،جہادیشام،عراق میں دہشت گرد تنظیموں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں،جرمن سخت گیر مسلمانوں سزا دینے کے ساتھ ان کے بنیاد پرست نظریات کوتبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہزار سے زائد سخت عقیدے کے جہادیوں کے پاس جرمن پاسپورٹ ہے۔

ان میں سے کئی جرمنی چھوڑ کر شام یا عراق میں دہشت گرد گروپوں کی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔جرمن میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ایک ہزار سے زائد کٹر مسلمان جرمن پاسپورٹ کے حامل ہیں اور ان میں کئی اس وقت شام یا عراق میں دہشت گرد تنظیموں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ انتہائی اہم معلومات جرمن حکومت نے پارلیمنٹ میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت کے ایک رکن کے سوال کے جواب میں بتائی ہیں۔

(جاری ہے)

فنکے میڈیا گروپ کے مطابق جرمن پاسپورٹ کے حامل بہت سارے سخت گیر مسلمان تنازعات کے علاقوں کی جانب روانہ ہو چکے ہیں۔ حکومت نے سلامتی کے اداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایسے افراد یقینی طور پر جہادی قرار دیے جا سکتے ہیں لیکن اس وقت ایسے افراد کی بیرون جرمنی روانہ ہونے کی شرح خاصی کم ہے۔فنکے میڈیا گروپ کی رپورٹ کے مطابق جرمن پاسپورٹ حاصل کرنے والوں میں 243 کا تعلق ترکی میں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (PKK) اور کردستلان ڈیموکریٹک یونین پارٹی سے ہے۔

جرمنی میں کردستان ورکر پارٹی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔ شام و عراق میں کرد علاقوں کے بعض حصوں میں ابھی بھی اسلامک اسٹیٹ فعال خیال کی جاتی ہے۔ اس وقت کئی جرمن سخت گیر مسلمان شام، ترکی اور عراق میں جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزام کے تحت جیلوں میں مقید ہیں۔ کئی مقید جہادیوں کے خاندان کی عورتیں اور بچے واپس جرمنی لوٹ چکے ہیں۔

انگیلا میرکل کی سابقہ حکومت میں ایک تجویز پر اتفاق پایا گیا تھا کہ لوٹنے والے جہادیوں کے پاس اگر دوہری قومیت ہوئی تو ان کی جرمن شہریت کو جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی بنیاد پر منسوخ کر دیا جائے۔ بائیں بازو کی سیاسی جماعت اس تجویز کو غیر دستوری خیال کرتی ہے اور اس سے جرمن شہریوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔دوسری جانب چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت کی اتحادی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض ارکان بھی اس دستوری تجویز پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں۔

ان میں ایک اولی گروئٹش ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ تجویز علامتی ہے اور اس کے سیاسی مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن ضرورت اس کی ہے کہ ایسے سخت گیر مسلمانوں کو ان کی سرگرمیوں پر سزا دینے کے ساتھ ساتھ ان کے بنیاد پرستانہ نظریات کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔