ملک میں علاج وہی کرا سکتا ہے جو مالدار یا بااثر ہو، چیف جسٹس

ہفتہ 8 دسمبر 2018 16:40

ملک میں علاج وہی کرا سکتا ہے جو مالدار یا بااثر ہو، چیف جسٹس
راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 08 دسمبر2018ء) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پاکستان میں علاج وہی کرا سکتا ہے جو مالدار یا بااثر ہو جب کہ غریب کا اچھا علاج نہیں ہوتا۔راولپنڈی میں ادارہ امراض قلب میںتقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تکلیف کی کوئی زندگی نہیں ہوتی، والدہ کی بیماری میری زندگی کا تکلیف دہ امر تھا، میں نے یہ دیکھا کہ پاکستان میں علاج وہی کرا سکتا ہے جو مالدار یا بااثر ہو۔

اس لئے صحت کے شعبہ میں کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا کہ ہر غریب کا آسان علاج ہوسکے، میں نے سپریم کورٹ کے ججوں سے بھی چندہ لے کر اسپتالوں کو دیا۔جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ معاشرہ کے بیمار افراد کے علاج پر توجہ حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن غریب کا اچھا علاج نہیں ہوتا حالانکہ یہ اس کا قانونی حق ہے، اسپتالوں میں دیکھا کہ علاج کے بنیادی آلات ہی نہیں، وینٹی لیٹرز خراب تھے اور جو ٹھیک تھے وہ صرف سفارشیوں کے لیے تھے، کوئی امیر آجائے تو غریب کو لگا وینٹی لیٹر اتارکر امیر کو لگا دیا جاتا، خیبر پختونخوا کے اسپتالوں میں گیا تو دیکھا کہ ایک بستر پر 3،3 مریض تھے، یہ حکومت کی مکمل ناکامی ہے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ صحت کے شعبہ میں حکومتی فنڈز بہت کم ہیں اور وہ بھی درست استعمال نہیں ہوتے، اب میڈیکل تعلیم بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے مگر ہم عطائی زیادہ پیدا کر رہے ہیں، نجی میڈیکل اسپتالوں کا معاملہ دیکھا تو بتایا گیا پڑھانے والا ہی کوئی نہیں مگر وہ ڈاکٹر بنتے ہیں، میں یہ سن کر ڈر گیا کہ ہم کس طرف جارہے ہیں، سینئر ڈاکٹروں کی ذمہ داری ہے کہ اس پر نظر رکھیں، ادویات اور علاج کے اخراجات کی قیمتیں مقرر کر دیں،ڈالر کی قیمت بڑھنے سے قیمتیں دوبارہ بھی دیکھنی ہیں تاکہ ڈالر سے ہم آہنگ ہوسکیں انہوں نے کہا کہ طبی سہولتوں کی مخدوش صورتحال ریاست کی ناکامی ہے ملک میں بہت کچھ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، محنت کرکے مایوسی کی زندگی سے بچا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی سیکریٹری صحت ڈاکٹر کیوں نہیں ہوسکتے، ایسے افسران تعینات کیے جائیں جنہیں مسائل کا ادراک ہو، سفارشی کلچر ختم اور تمام کام میرٹ پر ہونے چاہئیں۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بی کے ایل آئی پر22 ملین کی خطیر رقم لگی اس میں بنیادی سہولیات نہیں، صحت کے نظام میں بہتری کے لیے ماضی کے مقابلے زیادہ کام کرنا ہوگا، ہم نے اسپتالوں میں موجود مشینری کے لیے گائیڈ لائن دے دی ہے، اب یہ ایگزیکٹو کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کو مکمل انداز میں لاگو کروائے، سپریم کورٹ پاکستان میں شعبہ صحت کی بہتری کے لیے مکمل تعاون کرے گی۔