بچے کی پیدائش سے قبل والدین کو جنس بتانے کا معاملہ

پنجاب حکومت نے قانون سازی کا فیصلہ کر لیا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 18 دسمبر 2018 13:34

بچے کی پیدائش سے قبل والدین کو جنس بتانے کا معاملہ
لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18 دسمبر 2018ء) : پنجاب حکومت نے بچے کی پیدائش سے قبل والدین کو بچے کی جنس بتانے کے حوالے سے قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے اسقاط حمل کے واقعات میں بھی نمایاں کمی ہو گی۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت نے اسقاط حمل کے واقعات پر قابو پانے کے لیے صوبائی سطح پر باقاعدہ قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس قانون سازی کے مطابق پیدائش سے پہلے والدین کو بچے کی جنس بتانے پر پابندی عائد ہوگی۔

اس حوالے سے صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اب بچے کی پیدائش سے 3 ماہ سے بھی پہلے بچے کی جنس کا تعین ممکن ہو چکا ہے۔ طب کے شعبے میں اس ایڈوانسمنٹ کے باعث بیٹوں کے خواہش مند والدین بچے کی پیدائش سے قبل ہی جنس معلوم کرلیتے ہیں اور جب انہیں علم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں بیٹی پیدا ہونے والی ہے تو اسقاط حمل کی کوشش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

صوبائی وزیرِ صحت کا کہنا تھا کہ اس طرزِ عمل سے جینڈر امبیلنس (معاشرے میں جنس کا توازن بگڑنے) کا خطرہ لا حق ہو سکتا ہے جس سے نمٹنے کے پیشِ نظر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پنجاب قانون سازی کے لیے بل لانے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ قانون سازی ہونے کے بعد والدین کو بچے کی پیدائش سے قبل جنس بتانا قانونی طور پر جُرم ہو جائے گا۔

واضح رہے کہ اس حوالے سے یہ پنجاب حکومت کا قابل ستائش اقدام ہے۔ اس قانون کو لانے کا مقصد بیٹی ہونے کی صورت میں والدین کی جانب سے اسقاط حمل کروانے کے قابلِ مذمت رجحان کو ختم کرنا ہے۔ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں لہٰذا ہمیں اسلامی تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہوئے خواتین کے حقوق کو پورا کرنا چاہئیے۔ پنجاب حکومت کا یہ اقدام معاشرے میں جنس کی بنیاد پر امتیاز کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔