پاکپتن دربار اراضی کیس ، عدالت نے فریقین سے پندرہ دنوں میں جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب طلب کر لیا

زمین کی الاٹمنٹ کی سمری اس وقت کے وزیرعلیٰ نواز شریف نے منظور کی ،زمین کی الاٹمنٹ کا فیصلہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی تھی،جسٹس عمر عطاء بندیال

بدھ 15 مئی 2019 14:01

پاکپتن دربار اراضی کیس ، عدالت نے فریقین سے پندرہ دنوں میں جے آئی ٹی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 مئی2019ء) سپریم کورٹ میں پاکپتن دربار اراضی کیس کی سماعت عدالت نے فریقین سے پندرہ دنوں میں جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب طلب کر لیا ہبے جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ زمین کی الاٹمنٹ کی سمری اس وقت کے وزیرعلیٰ نواز شریف نے منظور کی ،زمین کی الاٹمنٹ کا فیصلہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی تھی۔

بدھ کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔رفیق رجوانہ پہلی مرتبہ نوازشریف کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے اور کہاکہ یہ اراضی سجادہ نشین کو صرف دیکھ بھال کیلئے دی گئی۔انہوںنے کہاکہ یہ سجادہ نشین نے آگے فروخت کر دی،زمین محکمہ اوقاف سے واپس لینے کا نوٹیفکیشن سیکرٹری اوقاف نے جاری کیا۔

(جاری ہے)

رفیق رجوانہ نے کہاکہ نوازشریف کا اس سارے معاملے میں کوئی کردار نہیں،سمری دستخط کرتے وقت کسی نے نہیں سوچا کہ آگے کیا ہو گا ۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ سرکاری زمین کا تحفظ ہونا چاہیے،زمین کی الاٹمنٹ کی سمری اس وقت کے وزیرعلیٰ نوازشریف نے منظور کی۔ انہوںنے کہاکہ زمین کی الاٹمنٹ کا فیصلہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی تھی۔انہوںنے کہاکہ حقائق جاننے کیلئے معاملے پر جے آئی ٹی بنوا کر تحقیقات کروائیں۔ وکیل نوازشریف نے کہاکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ ‘‘ون مین رپورٹ’’ ہے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ جے آئی ٹی رپورٹ آ چکی ہے۔ افتخار گیلانی نے کہاکہ اس جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات اور جواب داخل کرا چکا ہوں۔افتخار گیلانی نے کہاکہ 29 سال بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیا،اس کیس میں 1986 کے وزیراعلیٰ کو بھی نوٹس کیا گیا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ دربار کی اراضی کیا اوقاف کی ہے یا سرکار کی ۔

افتخار گیلانی نے کہاکہ اوقاف صرف وقف املاک کی دیکھ بھال کرتا ہے اس کی اپنی کوئی ملکیت نہیں ہوتی۔ جسٹس عمر عطاء بندال نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ وزیرعلیٰ نے ایک سمری ہر دستخط کر کے اراضی ایک پرائیویٹ آدمی کو دے دی۔دلائل سننے کے بعد عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ پر فریقین سے پندرہ یوم میں جواب طلب کر لیابعد ازاں کیس کی مزید سماعت عید کے بعد تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ۔