سعودی عالم نے طلاق کو نعمت قرار دے دیا

ممتاز سعودی عالم شیخ ڈاکٹر عبداللہ المطلق کے مطابق طلاق انتہائی ناگزیر ہو تو پھر یہ ایک بڑی نعمت ہے

Muhammad Irfan محمد عرفان بدھ 24 جولائی 2019 11:39

سعودی عالم نے طلاق کو نعمت قرار دے دیا
مکہ مکرمہ(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24جولائی 2019ء) ممتاز سعودی عالم شیخ ڈاکٹر عبداللہ المطلق نے بتایا ہے کہ طلاق کا معاملہ بڑا پیچیدہ اور مشکل ترین ہوتا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کو بھی طلاق پسند نہیں ہے، مگر انتہائی مجبوری کے عالم میں اس کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ اسلام کے مطابق طلاق بدترین حلال ہے۔ لیکن اگر مسئلے کاحل طلاق کے سوا کوئی نہ ہو تو ایسی صورت میں طلاق نعمت بن جاتی ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ہمیں بتایا ہے کہ اگر میاں بیوی ناگزیر حالت میں طلاق پر مجبور ہوں اور دونوں ایک دوسرے سے خوش اسلوبی سے دور ہوجائیں تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ دونوں کے ساتھ رحمت کا معاملہ فرماتا ہے۔واضح رہے کہ ڈاکٹر عبداللہ المطلق سعودی عرب کے ممتاز ترین علماء پر مشتمل بورڈ کے رُکن ہیں اور شاہی ایوان کے مشیر وں میں سے ایک ہیں ۔

(جاری ہے)

اس سے پہلے بھی اُن کے فتوؤں کا خوب چرچا ہوتا رہا ہے۔ اس سے قبل انہوں نے سعودیوں کو تاکید کی تھی کہ وہ ایک سے زائد شادیاں کریں تاکہ مطلقہ خواتین اور بڑھتی عمر کی حامل کنواری خواتین کو تحفظ مِل سکے۔ وہ سرکاری سعودی چینل ون کے ایک خصوصی مذہبی پروگرام ’فتاویٰ‘ میں مختلف لوگوں کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔اسی دوران ایک خاتون نے اْن سے سوال کیا کہ مملکت میں ایک سے زائد شادیوں کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے مگر مرد حضرات اپنی بیویوں کے درمیان انصاف نہیں کر پا رہے۔

کسی سے زیادہ التفات برتتے ہیں اور کسی سے کم۔ کیا کثیر الازدواجی ایک مثبت رواج ہے۔ اس کے جواب میں شیخ المطلق نے کہا کہ اسلام کی رْو سے کثیر الازدواجی کی ممانعت نہیں ہے۔البتہ بعض اوقات معاشرے میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے جبکہ بعض صورتوں میں یہ جْرم کی شکل اپنا لیتا ہے۔ کسی سماج میں زائد عمر کی کنواریوں اور مطلقہ خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو جانے کی صورت میں ایک سے زائد شادیاں ضروری ہو جاتی ہیں تاکہ مذکورہ خواتین کو سہارا مِل سکے۔

اس وقت بہت سی بچیاں جوانی ڈھلنے کے باوجود شادی شْدہ زندگی کی خوشیوں سے محروم ہیں۔ جبکہ کچھ خواتین طلاق یافتہ ہونے کے بعد تنہائی، بے بسی اور کسمپْرسی کا جیون بِتانے پر مجبور ہیں۔ اس لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ایک سے زائد شادیاں کریں۔ جبکہ بیویوں کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہروں کی دْوسری شادی میں رکاوٹ ڈالنے کی بجائے اس نیک کام میں اْنہیں اپنا بھرپور تعاون دیں۔ البتہ مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ یکساں حْسنِ سلوک اور مساوات کا رویہ اپنائے تاکہ خانگی تلخیاں جنم نہ لیں۔