عدالیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے، ججز کو غیر جانبدارانہ طریقے سے فیصلہ کرنا چاہئے، منصف کو ہر قسم کی مداخلت سے آزاد ہونا چاہئے،

میری وفاداری اپنے حلف کے ساتھ ہی رہے گی جج کو جس منصب پر بیٹھایا گیا ہے اس کا احتساب بھی کڑا ہونا چاہیے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کا ’’عدالتی آزادی کا مفہوم اور اس کا مقصد‘‘ کے موضوع پرسیمینار سے خطاب

بدھ 9 اکتوبر 2019 20:40

عدالیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے، ججز کو غیر جانبدارانہ ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 اکتوبر2019ء) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ عدالیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے، ججز کو غیر جانبدارانہ طریقے سے فیصلہ کرنا چاہئے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو عدالتی آزادی کا مفہوم اور اس کا مقصد کے موضوع پر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے 2007 میں قانون کی بالادستی کے لئے آواز اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے 9 روز کے لئے انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کی اس کانفرنس میں سپریم کورٹ کے دو ججز بلوچستان اور لاہور ہائیکورٹ کے ججز نے بھی شرکت کی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ججز کا سوشل میڈیا میں اکائونٹ ہونا چاہئے اور نا سوشل میڈیا وزٹ کرنا چاہئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کو غیر جانبدارانہ طریقے سے فیصلہ کرنا چاہئے اور منصف کو ہر قسم کی مداخلت سے آزاد ہونا چاہئے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ چمبر میں ملاقات کرے اور کسی کو معلوم نا ہو یہ ممکن نہیں ہے قانون کو کسی شخصیت کو دیکھے بغیر فیصلہ کرنا چاہیئے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حضرت محمد ﷺنے ایک غلام کو سینے سے لگایا کہ یہ میرا بیٹا ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاف کا درس دیا ہے ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سماجی میڈیا یا سماجی ابلاغ اور اس کے معاشرے اور اداروں پر اثرات ہیں جھوٹی خبریں، تہمت لگانا اور افواہوں کو پھیلانا جرم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا ایک حقیقت ہے میں جب انٹرنیشل کانفرنس میں تھا تو معلوم ہوا کہ میرے خلاف سوشل میڈیا پر کوئی پروپیگنڈہ چلا رہا ہے میں نے اپنے خلاف پروپیگنڈاکو نظر انداز کر دیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے قرآن شریف کا حوالہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر روشنی ڈالی ۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس اسلامی معاشرے میں کوئی ایک گواہ دیکھائیں جس نے ماتحت عدالت میں سچی گواہی دی ہو ۔انہوں نے کہا کہ عدالیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے ۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جس معاشرے میں قانون کی بالادستی نا ہو تو وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جج یہ نہ سوچے کہ سوشل میڈیا میں کیا چل رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بار نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کی بات کی ہے۔انہوں نے کہا کہ میری وفاداری اپنے حلف کے ساتھ ہی رہے گی جج کو جس منصب پر بیٹھایا گیا ہے اس کا احتساب بھی کڑا ہونا چاہیی.۔انہوں نے کہا کہ جج کو بغیر کسی سفارش کے غیر جانبدار طریقے سے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے ایک منصف کے لیے آزاد ہونا اس لیے ضروری ہے کہ وہ دیانتداری سے فیصلے کر سکے اگر کسی جج نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ وہ صرف مقبول فیصلے کرے تو وہ بھی درست نہیں ہے ۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک جج پر کئی طرح کے طبقات اثر انداز ہو سکتے ہیں جس میں طاقتور قوتیں، دوست اور رشتہ دار ہو سکتے ہیں جج کو چاہئے وہ خود کو ان سب سے دور رکھے۔