خوراک کی عالمی پیداوار کا 14 فیصد حصہ صارفین تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہوجاتا ہے.اقوام متحدہ

2 فیصد آبادی میں اضافے کی شرح کے ساتھ ہی ہماری مقامی غذائی ضروریات تیزی سے بڑھ رہی ہیں . رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 15 اکتوبر 2019 11:34

خوراک کی عالمی پیداوار کا 14 فیصد حصہ صارفین تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ..
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 اکتوبر ۔2019ء) اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ خوراک پھل، سبزی، دالیں، اناج وغیرہ کی عالمی پیداوار کا 14 فیصد حصہ صارفین تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہوجاتا ہے. رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر (ایف اے او) کی رپورٹ دی اسٹیٹ آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر 2019کے مطابق کاشتکاری سے لے کر اسٹوریج اور ترسیل کے تمام مراحل کےدوران خوراک کا بڑا حصہ برباد ہوجاتا ہے جس کے سدباب کے لیے نئے طریقے اپنانے کی ضرورت ہے.

(جاری ہے)

رپورٹ میں کہا گیا کہ مشرقی اور جنوبی مشرقی ایشیا میں اناج اور دالوں کے مقابلے میں پھل اور سبزیوں کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور وہ صارفین کے لیے قابل فروخت بن جاتی ہے واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ پہلے بھی خبردار کرچکا ہے کہ جنوبی امریکا اور افریقہ کے زیادہ تر ممالک میں خوراک کی صورتحال بگڑ رہی ہے جبکہ ایشیا میں غذائیت کی کمی میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے.تازہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسٹوریج کی عدم دستیابی اور کاشت کاری کے ناقص یا پرانے طریقے اپنانے کی وجہ سے خوراک کو غیرمعمولی نقصان پہنچتا ہے علاوہ ازیں پھل اور سبزیوں کی ناقص پیکنگ اور صارفین تک ان کی ترسیل کے غیرمعیارانتطام خوراک کے ضائع ہونے کا دوسرا بڑا سبب ہے.

اس ضمن میں بتایا گیا کہ صنعتی ممالک کے مقابلے میں ترقی پذیر ممالک میں کمزور انفراسٹریکچر کے نیتجے میں تازہ پھل اور سبزیوں برباد ہوجاتی ہیں رپورٹ میں تمام ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ خوارک کے ضائع ہونے سے متعلق اسباب کی نشاندہی کریں گی اور لائحہ عمل تشکیل دیں. خیال رہے کہ عالمی ادارے برائے تحفظ خوراک اورغذائیت کی رپورٹ برائے سال 2018 کے حالیہ اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں خوراک سے محروم افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو سال 2017 میں 8 کروڑ 20 لاکھ تھی.

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ اگر 2030 تک دنیا کو بھوک اور غذائیت کی کمی سے پاک کرنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم موسمیاتی تغیرات اور تبدیلیوں کے جواب میں خوراک کی نظام کی بہتری اور لوگوں میں اس کے حصول کی صلاحیت بڑھانے کے لیے اقدامات کو تیز کریں. تقریباً 2 فیصد آبادی میں اضافے کی شرح کے ساتھ ہی ہماری مقامی غذائی ضروریات تیزی سے بڑھ رہی ہیں جبکہ قابل کاشت زمین کو بڑھانے میں ناکامی اور مسلسل پانی کی کمی چاول کی پیداوار کی ہماری صلاحیت کو محدود کر رہی ہے‘رپورٹ میں اس بات کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا کہ مختلف قسم کی غذائیتوں کی کمی، بچپن کی متحرک زندگی کے بعد نوجوانوں میں موٹاپے کے حوالے سے قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے جس سے لاکھوں لوگوں کی صحت کو خطرات کا سامنا ہے.