پاکستان میں فالج کے ہر سال 3 لاکھ 50 ہزارحملے ہوتے ہیں،ڈاکٹر فوزیہ صدیقی

حکومت، میڈیا اوراین جی اوز فالج کے اعداد و شمار جمع کرنے اور مرض کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے لئے کردار ادا کریں،فالج کے عالمی دن پر پیغام

منگل 29 اکتوبر 2019 19:10

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 اکتوبر2019ء) دنیا بھر میںا موات کی دوسری بڑی وجہ فالج ہے جس سے ہر سال 15 ملین افراد متاثر ہوتے ہیں۔ ہر چار افراد میں سے ایک فرد کو زندگی بھر میںکبھی بھی ایک مرتبہ فالج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ "پاکستان میں ہر سال ساڑھے تین لاکھ سے زائد نئے افراد کو فالج کا سامنا کرنا پڑتا ہی" ۔ یہ بات ملک کی ممتاز نیورولوجسٹ ا ور مرگی کے مرض کی ماہرڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے 29 اکتوبر 2019 کو فالج کے عالمی دن کے موقع پرایپی لیپسی فائونڈیشن پاکستان سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں فالج کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں اور عام طور پر لوگوں میںلاعلمی کی وجہ سے اس مرض پر قابو پانے کے اچھے نتائج نہیںموصول ہو پارہے ہیں۔

(جاری ہے)

اگر فالج کے حملہ سے موت واقع نہیں ہوتی ہے مگر مریض مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے اور عام طور پر کام کرنے سے قاصربھی ہوجاتا ہے۔لوگوں کو اس مرض کے بارے میں اچھی طرح سے آگاہی دے کرفالج کے بہت سارے اسباب کو روکا جاسکتا ہے۔

ایٹریل فیبریلیشن (AFib) جیسے اسباب ، جو دل کی بے قاعدہ اور تیزرفتار دھڑکن کی ایک حالت ہے ، ایسی حالت میں فالج کے اٹیک کے پانچ گنا امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ "ایٹریل فیبریلیشن (AFib) کی صورت میں فالج کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرے میں اضافہ ہوجاتا ہے اور تخمینہ لگایا گیا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں اسٹروک کی شرح 15 فیصد ہوتی ہے۔

یہ دل کی بے قاعدہ دھڑکن کی ایک عام قسم ہے ، جسے ایری تھیمیا (arrhythmia)بھی کہا جاتا ہے۔افیب(AFib) کے ذریعہ ، دل کے چیمبر میں (خون) کا ایک لوتھڑا بن سکتا ہے جو دماغ تک پہنچ سکتا ہے۔اس سے امکانی طور پر تباہ کن’’ تھرمبوئمولک‘‘ (thromboembolic) فالج ہوسکتا ہے۔ادویات کے ذریعہ ان لوتھڑوں کی تشکیل کو آسانی سے روکا جاسکتا ہے اور لوگوں تک یہ آگاہی پہنچانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ جو افراد ایسی علامات کے خطرے سے دوچار ہیں انہیں فالج کے حملے سے بچنے کیلئے ان مسائل کو حل کرنا چاہئے۔ 60 یا اس سے زیادہ کی عمر کے لوگ خاص طور پر 75 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو فالج کے حملے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ دل کا فیل ہوجانا، ہائی بلڈ پریشر ، ذیابیطس ، پچھلے فالج کا حملہ ، عارضی اسکیمک ہارٹ اٹیک (ٹی آئی ای) ، یا تھرومبو ایمولوزم ، دائمی گردوں کی بیماری ، اور دل کے بائیں جانب کے چیمبر کی توسیع ایسے عوامل ہیں جو فالج کے حملے کے عوامل بن سکتے ہیں۔

"اگرچہ ایڈز ، تپ دق اور ملیریا کے مقابلے میںفالج سے سالانہ زیادہ اموات واقع ہوتی ہیں لیکن یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ ہائی بلڈ پریشر ، ہائی بلڈ شوگر ، بے قاعدہ دل کی دھڑکنوں اور بلڈ پریشر کی جانچ پڑتال کرکے اس بیماری سے بچا جاسکتا ہے۔مناسب ابتدائی طبی امداد نہ ملنے کے باعث فالج کے پہلے حملے کے بعد 25 فیصد مریض دم توڑ دیتے ہیں۔ تاہم فالج کے پہلے حملے کے بعدابتدائی 48 گھنٹے علاج کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔

20 فیصد مریضوں کو عوام میں بیداری پیدا کرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر فوزیہ نے میڈیا ، حکومت اور ملک بھر میںبرادری کی بنیاد پر قائم تنظیموں(این جی اوز) پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں مریضوں کے اعداد و شمار کو جمع اور تجزیہ کرکے فالج کے مرض کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے لئے کردار ادا کریں۔ایک تحقیق کے مطابق ، امریکہ میں ایک لاکھ کی آبادی میں 200 کے قریب فالج کے مریض ہیں جبکہ پاکستان میں ایک لاکھ کی آبادی میں یہ تعداد 250 افراد کے قریب ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر سال 3 لاکھ 50 ہزار فالج کے نئے مریض بن جاتے ہیں۔

"ہر پانچ سیکنڈ میں دنیا بھر میں فالج سے وابستہ بیماری ، معذوری اور ا موات اگلے 15 سالوں میں (یعنی 2035 ء تک) دوگنا ہوجائے گی جوکہ ایک تشویشناک صورتحال ہے ، لہٰذا ایسے حالات میں فالج سے بچاؤ کی حکمت عملی تیار کرنا ضروری ہوجاتا ہے تا کہ پاکستان میں اس مرض کو بڑھنے سے روکا جاسکے۔