کویت کی متنازعہ خاتون رُکن پارلیمنٹ نے ایک اورتارکین مخالف بیان داغ دیا

تارکین وطن کی شدید مخالف صفاء الہاشم نے کورونا وائرس کا ذمہ دار غیر ملکیوں کو قرار دے کر انہیں فوری طور پر وطن سے نکالنے کا مطالبہ کیا ہے

Muhammad Irfan محمد عرفان ہفتہ 4 اپریل 2020 15:54

کویت کی متنازعہ خاتون رُکن پارلیمنٹ نے ایک اورتارکین مخالف بیان داغ ..
کویت(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔4 اپریل 2020 ء) کویتی رُکن پارلیمنٹ صفا الہاشم اپنے ملک میں موجود تارکین وطن سے بہت نالاں نظر آتی ہے۔ وقتاً فوقتاً ان کی جانب سے تارکین وطن کے خلاف ایسے بیانات جاری کیے جاتے ہیں ، جن پر نہ صرف تارکین کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا جاتا ہے، بلکہ دُنیا بھر میں بھی انہیں حیرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اب کی بار انہوں نے کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر ایک اور ناپسندیدہ بیان داغ دیا ہے جس پر تارکین کے علاوہ ان کے ہم وطن افراد کا بھی شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔

العربیہ نیوز کے مطابق متنازعہ حیثیت کی حامل خاتون رُکن پارلیمنٹ صفاء الہاشم نے مطالبہ کیا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاوٴ کی روشنی میں حکومت فوری فیصلہ کرتے ہوئے ملک سے غیر ملکیوں کو بے دخل کرے۔

(جاری ہے)

جمعے کے روز ٹویٹر پر جاری بیان میں صفاء نے کہا کہ "یقینا ان حالات میں زیادہ تر غیر ملکیوں کی موجودگی کویت کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ ان لوگوں کا ضرر ان کے فائدے سے زیادہ بڑا ہے۔

اس لیے کہ یہ لوگ کرونا کی وبا پھیلانے کا ایک بڑا سبب ہیں۔ لہذا ان غیر ملکیوں کی اپنے وطنوں کو واپسی کرونا وائرس کے خطرے کو روک لگا دے گی اور آبادی کے تناسب کے مسئلے کو بڑی حد تک حل کر دے گی"۔اسی طرح مذکورہ خاتون رکن پارلیمنٹ نے فیس بک پر پوسٹ میں لکھا کہ "ملک میں کرونا وائرس کے کیسوں کی اتنی بڑی تعداد سامنے آنے کے بعد حکومت پر لازم ہے کہ وہ بنا کسی ہچکچاہٹ کے اْن تمام غیر ملکیوں کو بے دخل کرے جو کام نہیں کر رہے ہیں۔

یہ افراد Marginal Employment کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں"۔کویت میں سامنے آنے والے حالیہ بیانات نے سوشل میڈیا پر بڑی بحث چھیڑ دی ہے۔ تبصرہ کرنے والوں کی آراء اس موقف کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان تقسیم ہو گئی ہیں۔ بعض حلقوں نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے نسل پرستی کا رجحان جنم لے گا۔اس سے قبل بدھ کی شام "العربیہ" کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خاتون فن کار حیات الفہد نے کہا کہ کرونا سے متاثرہ غیر ملکیوں کو ملک سے بھیج دینے سے متعلق ان کے بیان کو سمجھنے میں غلطی کی گئی ہے۔

سینئر فن کارہ نے باور کرایا کہ وہ کسی طور بھی نسل پرست نہیں ہیں۔حیات الفہد کے مطابق ملک پر دباوٴ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور ہسپتال بھر چکے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کویت ایک چھوٹا ملک ہے جو 10 لاکھ شہریوں پر 40 لاکھ غیر ملکیوں کے بوجھ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔واضح رہے کہ ماضی میں بھی صفاء الہاشم بہت متنازعہ بیانات دے چکی ہیں۔گزشتہ سال صفا الہاشم نے پارلیمنٹ میں تجویز پیش کی تھی کہ 40 سال سے زائد عمر کے تارکین وطن کو مملکت سے بے دخل کر دیا جائے۔

صفا الہاشم نے کہا کہ خاص طور پر تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے 40 سال سے زائد عمر کے غیر مْلکیوں کو ان کی ملازمتوں سے فارغ کر کے وطن واپس بھیج دیا جائے۔انہوں نے یہ تجاویز بھی پیش کیں کہ جو غیر ملکی تین ٹریفک خلاف ورزیاں کرے، اسے بھی کویت سے بے دخل کر دیا جائے۔اس کے علاوہ زیادہ عمر کے تارکین وطن ، بیمار اور معذوری میں مبتلا غیر مْلکیوں کو بھی کویت سے نکال دیا جائے۔

صفاء کی ایک تجویز یہ بھی تھی کہ کویت میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں سمیت جن کے اقامے ختم ہیں، اگر ان کو کوئی مقامی شہری کسی قسم کی سہولت دیتا ہے، تو اس پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔ صفاء کا موقف تھا کہ تارکین کی بڑی گنتی کی وجہ سے کویتی باشندے اپنے ہی مْلک میں اقلیت بن کر رہ گئے ہیں، جس کے باعث ان کی زبان اور کلچر پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اس سے قبل بھی ایک بار صفاء الہاشم نے غیر مْلکیوں کے ساحلِ سمندر پر نہانے پر بھی ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی تھی۔ سفاء الہاشم نے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ تارکین وطن کی جانب سے عوامی مقامات اور عمارات کو استعمال میں لانے پر اْن سے فیس وصول کرے۔ انہوں نے کویت میں تعمیر کیے گئے دُنیا کے چوتھے طویل ترین پْل شیخ جابر کازوے پر بھی غیر مْلکیوں کی آمد و رفت پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

سفا کا کہنا تھا ”میں نے کئی بار خبردار کیا ہے اور اب بھی کر رہی ہوں کہ کویت میں غیر مْلکیوں کی تعداد تیس لاکھ جبکہ مقامی باشندوں کی گنتی 10 لاکھ سے زائد ہے۔ جو یہاں کے انفراسٹرکچر کے لیے ایک بوجھ ہیں۔ یہ لوگ عید کی چھْٹیوں میں پارکوں اور ساحلی مقامات کا رْخ کرتے ہیں تو کوڑا کرکٹ کی بڑی مقدار اکٹھی ہو جاتی ہے۔ اس لیے ان پر فیس لاگو کی جائے۔ ایک بار تو صفاء نے یہ کہہ کر حد کر دی تھی کہ تارکین وطن کی جانب سے سانس لینے پر بھی ٹیکس نافذ ہونا چاہیے۔