وزیر اعظم عمران خان نے چینی اور آٹے بحران کی رپورٹ پبلک کر کے مثال قائم کر دی ہے، چینی پر سبسڈی لینے والوں میں اومنی، شریف گروپ، جے وی ڈبلیو اور آروائی کے گروپ شامل ہیں، چینی برآمد ہوتی رہی اور اس پر سبسڈی بھی دی جاتی رہی، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ضرور ہو گی، معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو

ہفتہ 4 اپریل 2020 23:55

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 اپریل2020ء) وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ چینی پر سبسڈی لینے والوں میں اومنی، شریف گروپ، جے وی ڈبلیو اور آروائی کے گروپ شامل ہیں، چینی برآمد ہوتی رہی اور اس پر سبسڈی بھی دی جاتی رہی، پاکستان کی تاریخ میں اس سے قبل اس طرح کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی، وزیر اعظم عمران خان پہلے دن سے احتساب کی بات کرتے آئے ہیں انہوں نے رپورٹ پبلک کر کے مثال قائم کر دی ہے اور ذمہ داروں کے خلاف ضرور کارروائی ہو گی۔

ہفتہ کو نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبائی سطح پر گندم بحران میں وزیر خوراک، سیکرٹری خوراک اور ڈائریکٹر خوراک جبکہ اسی طرح وفاق میں بھی وزیر خوراک، سیکرٹری خوراک اور پاسکو کے مینجنگ ڈائریکٹر کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے کیونکہ انہوں نے ٹارگٹ کے مطابق گندم کی خریداری نہیں کی اور ان کی غفلت کی وجہ سے پولٹری ایسوسی ایشن والوں نے گندم کی خریداری کی جس کی وجہ سے گندم کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا۔

(جاری ہے)

معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہ شوگر برآمدات کے باعث قیمتوں میں اضافہ ہوا جس سے فائدہ اٹھایا گیا، کمیشن کی رپورٹ میں شوگر کے حوالے سے اہم بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ چار سے پانچ سالوں میں 25 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے، سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والوں کے نام رپورٹ میں دیئے گئے ہیں جس میں جے وی ڈبلیو، آروائی کے گروپ، شریف گروپ، اومنی گروپ، معیز گروپ اور کئی دیگر گروپ شامل ہیں۔

بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ اومنی اور شریف گروپ ماضی میں بھی شوگر پر سبسڈی لیتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شوگر کی برآمدات کی وجہ سے ملک میں چینی کی قیمتیں بتدریج بڑھتیں رہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے انکوائری کمیشن اختیارات کیلئے وفاق کو درخواست دی تھی جس پر وفاقی حکومت نے اس کو مانتے ہوئے اسے کمیشن کا درجہ دیا تھا، کمیشن کی کارروائی ابھی جاری ہے اور اس کی رپورٹ 25 اپریل کو متوقع ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ انکوائری رپورٹ نومبر 2018ء میں سبسڈی اور برآمدات کی اجازت دینے کے حوالے سے دی گئی ہے اور اس وقت خسرو بختیار وزیر خوراک نہیں تھے۔

متعلقہ عنوان :