گھریلو تشدد کے خلاف ہیلپ لائن، مزید ٹھوس اقدامات درکار

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 27 نومبر 2020 19:00

گھریلو تشدد کے خلاف ہیلپ لائن، مزید ٹھوس اقدامات درکار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 نومبر 2020ء) واضح رہے وزرات انسانی حقوق نے اس ہیلپ لائن کو قائم کیا ہے، جس میں خواتین پر تشدد کو رپورٹ کیا جا سکے گا۔

پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داری

پاکستان یورپی یونین کی طرف سے جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور وہ ایسے معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے، جس کے تحت اسے خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کو ختم کرنا ہے۔

ماضی میں کئی بار اس اسٹیٹس سے فائدہ اٹھانے کے باجود بھی پاکستان اس امتیاز کو ختم نہیں کر پایا ہے اور خواتین کے خلاف تشدد دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔

تشدد کو قابل سزا جرم قرار دینے کے لیے قانون لانے کا فیصلہ

گھریلو تشدد اور ہمارا دوہرا معیار

پریشان کن رجحان

حالیہ برسوں میں پاکستان میں جنسی حراسانی سمیت خواتین کے خلاف کئی طرف کے جرائم رپورٹ ہوئے۔

(جاری ہے)

دوہزار اٹھارہ کے گلوبل جینڈرگیپ انڈیکس کے مطابق پاکستانی خواتین اور لڑکیوں کو تشدد کے حوالے سے کئی چیلنجیز کا سامنا ہے۔ غیر سرکاری تنظیم وائٹ ریبن پاکستان کے مطابق دوہزار چار سے دو ہزار سولہ کے درمیان عورتوں کے خلاف جنسی تشدد کے چار ہزار سات سو چونتیس واقعات رپورٹ ہوئے، پندرہ ہزار غیرت کے نام پر جرائم ہوئے، اٹھارہ سو گھریلو تشدد کے واقعات رجسٹرڈ ہوئے اور پانچ ہزار پانچ سو خواتین کو اغواء کیا گیا۔

دوہزار گیارہ سے دوہزار سترہ تک خواتین کے خلاف اکیاون ہزار دوسو اکتالیس تشدد کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر انسانی حقوق کے کارکنان اور تشدد کی شکار خواتین اس اقدام کو ناکافی قرار دیتی ہیں۔

تشدد کی شکار خواتین کا موقف

تشدد کا شکار خواتین اس اقدام سے کچھ زیادہ امید نہیں لگا رہی ہیں۔ ان کے خیال میں معاشرتی رویئے اور پولیس کے کردار کو بدلے بغیر حکومتی اقدامات کی کامیابی مشکل ہے۔

مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کی رہائشی شفو بی بی کے خیال میں پولیس کا رویہ تبدیل کیے بغیر کسی بھی حکومتی اقدام کی کامیابی مشکل ہے۔ چھ بچوں کی ماں چوالیس سالہ شفو بی بی کا کہنا ہے کہ چھ ماہ پہلے اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن پولیس نے کچھ نہیں کیا۔ ''میرے دو سگے بھائیوں نے چار کنال کی زمین ہتھیانے کے لیے مجھے سر عام تشدد کا نشانہ بنایا۔

جب پرچہ کٹوانے گئی تو پولیس نے تعاون کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ جب عدالت گئی تو مقامی وڈیرہ بیچ میں آیا اور صلح صفائی کرائی۔ تو پولیس کا رویہ یہاں ظلم یا تشدد کی شکار عورت کے ساتھ انتہائی تحقیر آمیز ہوتا ہے۔ جب تک یہ رویہ تبدیل نہیں ہوگا، کوئی حکومتی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔‘‘

سماجی رویہ بدلنا ہوگا

خواتین کے حقوق کے لیے لڑنے والی مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اس طرح کی ہیلپ لائن بنائی گئیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے دور میں بھی ایسی ہی ایک ہیلپ لائن بنی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے تین خواتین کے کیسوں کے حوالے سے اس ہیلپ لائن سے مدد مانگی لیکن انہوں نے پوچھا کہ پہلے اس بات کو یقینی بنائیں کہ واقعی تشدد ہوا ہے بھی یا نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک عورت شکایت کرتی ہے تو پہلے شکایت کو درج کیا جائے۔

پھر پولیس کا یہ کام ہے کہ وہ اس کی تفتیش کرے کہ واقعی شکایت صحیح ہے یا غلط۔ آپ شکایت کے عمل کو اگر اتنا پیچدہ بنائیں گے تو تشدد کی شکار خواتین کیسے آپ سے رابطہ کریں گی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اصل مسئلہ معاشرتی رویوں اورپولیس کے کردار کا ہے۔ ''مردوں کی ایک بڑی تعداد تھپٹر مارنے، بیوی، بہن یا بیٹی کو لات مارنے یا دھکا دینے کو تشدد ہی نہیں سمجھتی۔

پولیس کہتی ہے کہ تشدد کے نشان دکھاؤ یا ہڈی ٹوٹی ہے تو دکھاؤ۔ گھریلو تشدد کو ذاتی مسئلہ قرار دے دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی نہیں بولتا۔ یہ سب تبدیل ہونا چاہیے۔‘‘

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں قوانین بنا لیے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ''سپریم کورٹ جرگوں کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے لیکن ملک کے کئی حصوں میں آج بھی جرگے ہورہے ہیں اور وڈیرے آج بھی کئی خواتین کی قسمتوں کے فیصلے کر رہے ہیں۔

اگر حکومت واقعی اس ہیلپ لائن کو کامیاب بنانا چاہتی ہے، تو شکایت پر فوری ایکشن کا طریقہ کار تیار کرنا ہوگا۔ اگر کسی جرگے یا پنچائیت کی خبر ملے تو فوری ایکشن ہونا چاہیے اور ہیلپ لائن چوبیس گھںٹے کے لئے ہونی چاہیے ورنہ یہ کوشش موثر نہیں ہوگی۔‘‘

عدالتوں کا قیام ضروری ہے

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس پاکستان کی رکن انیس ہاورن کا کہنا ہے کہ گو کہ یہ اقدام قابل ستائش ہے لیکن صرف یہ قدم ہی کافی نہیں ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت ایسے مقدمات کے لیے اسی کے قریب عدالتیں بھی بنانے کا کہہ رہی ہے ۔ اگر ایسی عدالتیں بنتی ہیں اور اس میں مستقل اسٹاف نہیں ہوتا تو پھر ہیلپ لائن اتنی موثر نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ حکومت کو پولیس اور عدالتوں میں بڑے پیمانے پر خواتین کو بھرتی کرنا پڑے گا۔ حکومت کہتی ہے کہ خواتین پولیس میں نہیں جاتی لیکن خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بھی حراسانی اوردوسرے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو اس ہیلپ لائن کے ساتھ اگر دوسرے اقدامات نہیں کیے جائیں گے تو یہ کوئی زیادہ موثر نہیں ہوگی۔‘‘