موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کی بڑی آبادی ذہنی دباﺅ کا شکار

نوجوانوں میں کچھ دہائیوں سے ڈپریشن‘ذہنی دباﺅ اور ٹرامیٹک سٹریس جیسی شکایات پائی جاری ہیں .ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 27 فروری 2021 13:42

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کی بڑی آبادی ذہنی دباﺅ کا شکار
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 فروری ۔2021ء) موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کی بڑی آبادی ذہنی دباﺅ کا شکار ہورہی ہے خصوصا نوجوانوں میں کچھ دہائیوں سے ڈپریشن‘ذہنی دباﺅ اور ٹرامیٹک سٹریس جیسی شکایات پائی جاری ہیں جو کہ انتہائی تشویشناک ہے . یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا، جانز ہاپکنز یونیورسٹی اور کینیڈا کی سائمن فریزر یونیورسٹی کے محققین کی ایک مشترکہ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی بدولت آنے والی تمام قدرتی آفتیں جیسے طوفان، شدید گرمی، جنگلات کی آگ اور سیلابوں کی وجہ سے ذہنی دباﺅ، ڈپریشن، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس اور ذہنی صحت کے مسائل پیدا ہورہے ہیں برطانوی سائنسی جنرل ”دی لانسینٹ پلینٹری ہیلتھ“ میں شائع ہونے والی اس تحقیقاتی رپورٹ کے مصنفین نے اس خوف کو ماحول کی وجہ سے ذہنی دباﺅ یا موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے ذہنی دباﺅ کا نام دیا ہے دوسرے الفاظ میں 30 برس سے کم عمر افراد کے نظریے سے اگر دیکھا جائے تو مستقبل بہت زیادہ روشن دکھائی نہیں دے رہا.

یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے طالب علم زیئے باسٹیڈا تب سے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑ رہی ہیں جب ان کے آبائی ملک میکسیکو میں سیلاب آیا تھا اس وقت وہ محض 13 برس کی تھیں ان کا کہنا ہے کہ وہ ان کی زندگی کے لیے بہت اہم لمحہ تھاان کا کہنا ہے کہ کبھی کبھار ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کب ہم کسی مسئلے کے بارے میں واقعی سوچنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر ہم اس پر عمل کرنے لگتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ انہیں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ذہنی دباﺅ کا سامنا ہے ‘انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے انہیں ایک بار ہسپتال میں بھی داخل کروانا پڑ گیا تھا ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ اپنا خیال نہیں رکھ سکتے، اپنے گھر کا خیال نہیں رکھ سکتے، اپنی دیکھ بھال نہیں کر سکتے تو آپ دنیا کی دیکھ بھال بھی نہیں کر سکتے. جارج میسن یونیورسٹی کے سینٹر فار کلائمیٹ چینج کمیونیکیشن (فور سی) کے ڈائریکٹر ایڈورڈ مائی باخ نے امریکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خوراک اور قومی تحفظ میں کمی آ رہی ہے، اس سے کم صحت مند اور کم ترقی یافتہ دنیا پیدا ہو رہی ہے‘ان کا کہنا تھا اگر دنیا کے ممالک نے اس موجودہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے آج کمر نہ باندھی تو جب حالات خراب ہوں گے تو آج کا نوجوان اس وقت کی دنیا میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گا لیکن نوجوان اس مسئلے پر توجہ دے رہے ہیں اور تبدیلی کے لیے سرگرم ہیں دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف تحریک میں نوجوان آگے آگے ہیں.

جہاں سویڈن کی گریٹا تھین برگ نے دنیا بھر کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے وہیں کینیڈا کی آٹم پیلٹئیر جن کا تعلق فرسٹ نیشن کمیونٹی سے ہے، ارجنٹینا کی برونو راڈریگاز، ہیلانا گوالینا اور ایکواڈور کی امازان بھی اس تحریک میں آگے آگے ہیں پیو، بروکنگز اور فور سی کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق 2020 کے امریکی صدارتی انتخاب میں موسمیاتی تبدیلی نوجوان ووٹرز کے لیے تین اہم ترین مسائل میں سے ایک تھا.

فور سی کے ایڈورڈ مائی باخ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے نوجوان راہنماﺅں نے کئی نسلوں کو اس تحریک میں شامل کر لیا ہے ان کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں سے لے کر سی ای اوز تک چاہتے ہیں کہ وہ نوجوانوں کو خوش رکھیں، کیونکہ اگر نوجوانوں کے پاس ملازمتیں نہیں رہیں گی تو ان کے پاس بھی نہیں رہیں گی. جہاں 1946 سے 1964 کے دوران پیدا ہونے والی نسل کے ووٹوں کا تناسب کم سے کم تر ہو رہا ہے، وہیں نوجوان نسل کے جسے جنریشن زی بھی کہتے ہیں ووٹوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔

(جاری ہے)

مائی باخ کے مطابق اگرچہ کمپنیوں کے سی ای او لوگوں کو جواب دہ نہیں ہیں لیکن آج کل کارپوریشن عوامی رائے کا بہت دھیان کرتے ہیں خصوصاً نوجوانوں کی رائے کا، کیونکہ وہ انہیں ملازمتوں پر رکھنا چاہتے ہیں اور وہ نوجوان صارفین کھونا نہیں چاہتے.

زئیے باسٹیڈا کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہمارے پاس وقت کم ہے اور ہم بس اس بارے میں صرف باتیں ہی نہیں کر سکتے بلکہ ہمیں کچھ کرنا بھی ہو گا ہمیں اس پر کام فوراً شروع کرنا ہوگا اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ واقعی میں کام کر رہے ہیں جب اس جانب نئے اقدامات کرتے ہیں جب ہم کمپنیوں کو اپنا سارا کاروباری طریقہ کار تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ایسے اقدامات مجھے مستقبل کے لیے پر امید کرتے ہیں.