ٹی ایل پی پر پابندی ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، عمران خان

DW ڈی ڈبلیو بدھ 21 اپریل 2021 12:20

ٹی ایل پی پر پابندی ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، عمران خان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2021ء) وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے واضح کیا ہے کہ ان کا تحریک لبیک پاکستان پر عائد کی گئی پابندی ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس تنظیم کو پابندی ختم کرانے کے لیے ملکی قوانین کے تحت عدالت میں درخواست دینی ہو گی۔

پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ختم کرنے کے اعلان نیز حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری سے متعلق قرار داد پیش کرنے کے بعد ایسا تاثر پیدا ہوگیا تھا کہ حکومت کالعدم تنظیم پر سے پابندی ختم کر سکتی ہے۔

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے پاکستان کے ایک نجی ٹیلی وژن چینل پر جاری ایک پروگرام کے دوران کہا تھا کہ ٹی ایل پی پر عائد پابندی مرحلہ وار طریقے سے ختم کر دی جائے گی۔

(جاری ہے)

علی محمد خان کا کہنا تھا، ''یہ بات (وزیر داخلہ) شیخ صاحب نے ایک اجلاس میں بھی کی ہے کہ یہ پابندی مرحلہ وار طریقے سے ختم کی جائے گی۔ یہ بیک جنبش قلم نہیں ہو سکتا، اس میں تھوڑا وقت لگے گا۔

‘‘ وفاقی وزیر نے مزید کہا تھا کہ کالعدم تحریک لبیک کے جن کارکنوں پر سنگین جرائم کا الزام نہیں ان کی رہائی بھی جلد ممکن ہے اور 'حکومت نے ان کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے وہ اس کی پابند ہے۔‘

حکومت پاکستان اور ٹی ایل پی کے درمیان بات چیت ’کامیاب‘

اپنے ملک کا نقصان نہ کریں: وزیر اعظم عمران خان

رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی سفیر کی ملک سے بے دخلی سے متعلق قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے چند گھنٹوں کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا کالعدم تحریک لبیک پاکستان پر عائد کردہ پابندی ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور کالعدم تنظیم کو پابندی کو ختم کرانے کے لیے عدالت سے رجو ع کرنا ہوگا۔

ذرائع کے مطابق پارلیمانی پارٹی کے شرکاء بھی اس بات پر متفق تھے کہ حکومت ٹی ایل پی پر سے پابندی نہیں ہٹائے گی اور کالعدم تنظیم کو پابندی ختم کرانے کے لیے عدالت میں درخواست دینی چاہیے۔

وزیر اعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ہر مسلمان پیغمبر اسلام سے محبت کرتا ہے اور ان کی توہین برداشت نہیں کر سکتا لیکن حکومت کی جانب سے مذمت کا طریقہ ٹی ایل پی سے قدرے مختلف تھا اور کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ وہی پیغمبر اسلام سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے۔

میڈیا ذرائع کے مطابق وزیر اعظم پاکستان کا خیال تھا کہ اگر پاکستان فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرتا ہے، تو یورپی یونین کا سخت ردعمل ہوسکتا اور یورپی یونین کے ممالک میں موجود پاکستان کے ستائیس سفیروں کو واپس آنا پڑ سکتا ہے۔

یاد رہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کی طرف سے ملک کے مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہروں کے بعد حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں دھرنے ختم کر دیے گئے تھے اور حکومت نے قومی اسمبلی میں منگل کے روز ایک قرار داد پیش کی تھی۔

پارلیمان میں پیش کی گئی قرارداد میں فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے موقف کی مذمت اور اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا تاہم اس پر ووٹنگ جمعے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ناموس رسالت کے معاملے پر تمام مسلمان ممالک کے ساتھ مل کر مغربی ممالک سے نمٹنے کی ضرورت ہے نیز یہ کہ اس معاملے کو بین الاقوامی فورمز پر اُٹھایا جانا چاہیے۔

دوسری طرف ٹی ایل پی کے ایک مرکزی رہنما کا کہنا ہے کہ انہیں فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے علاوہ کوئی بات قابل قبول نہیں۔

ج ا / ع س (نیوز ایجنسیاں)