اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مئی 2021ء) آسٹریلیا کے ایک تھنک ٹینک کے جائزے کے مطابق چین کے مغرب بعید میں واقع صوبے سنکیانگ میں 2017 ء تا 2019 ء بچوں کی پیدائش کی شرح حالیہ تاریخ کی نچلی ترین سطح پر رہی۔
آسٹریلیا
کے اسٹریٹیجک پالیسی انسٹیٹیوٹ 'اے ایس پی آئی‘ سے موصولہ رپورٹ ایسو سی ایٹڈ پریس کے ذریعے منظر عام پر آئی۔ اس سے ظاہر ہوا ہے کہ سنکیانگ میں شرح پیدائش میں 48.74 فیصد کی کمی خاص طور سے ان علاقوں میں ہوئی، جہاں ایغور نسل اور قازقستان سے تعلق رکھنے والے باشندے اور دیگر بڑی مسلم نسلی اقلیتیں آباد ہیں۔ یہ شرح چینی حکومت کی طرف سے قریب ایک دہائی پر محیط اعداد و شمار کے عین مطابق ہے۔چین
کا ’ون چائلڈ پالیسی‘ کے خاتمے کا اعلان2017 ء تا 2018 ء
چین
کے ایسے اضلاع میں جہاں بڑی اقلیتیں آباد ہیں، وہاں 2018 ء تا 2019 ء شرح پیدائش 43.7 فیصد کی حد تک گر گئی، یعنی وہاں اس عرصے میں بچوں کی پیدائش میں کمی ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے بھی زیادہ رہی۔(جاری ہے)
رپورٹ کی تصدیق
آسٹریلیا
کے اسٹریٹیجک پالیسی انسٹیٹیوٹ کی اس رپورٹ سے اے پی کے ایک مراسلے اور ایک جرمن ریسرچر آڈریان سنس کی گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ اس جرمن محقق کی رپورٹ کے مطابق چینی حکام کی طرف سے ایغور نسل کے مسلمانوں کے ہاں بچوں کی پیدائش پر سخت کنٹرول کے لیے نس بندی، اسقاط حمل اور خواتین میں آئی یو وی آلات کے استعمال جیسے حربے بروئے کار لائے گئے۔ اس کے علاوہ تین یا اس سے زیادہ بچوں والے والدین کو جرمانے کرنے اور انہیں حراست میں لینے جیسے اقدامات بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ایغور مسلمانوں کو خنزیر کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے، الجزیرہ رپورٹچین
کی متعلقہ وزارت اور سنکیانگ حکومت نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے کی درخواست وصول ہونے کے باوجود فوری طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم آسٹریلیا کے اسٹریٹیجک پالیسی انسٹیٹیوٹ اور جرمن ریسرچر آڈریان سنس دونوں بیجینگ حکومت کی زد میں آ چکے ہیں۔ انہیں بدنام کرنے کے لیے اس طرح کے الزامات عائد کیے گئے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتیں ان کی مالی اعانت کرتی ہیں۔ اس کے برعکس خبر رساں ادارے اے پی نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ ان دونوں کے بتائے گئے بہت سے اعداد و شمار چینی حکومت کے اپنے ڈیٹا پر مبنی ہیں۔ک م / م م (اے پی)