اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2021ء) بچپن کے سنہری دن یاد کروں تو دادی کے گھر کی رونق آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پہ مسکان لے آتی ہے. برآمدے میں رکھے تخت پر براجمان دادی اماں اکثروبیشتر کسی نہ کسی مہمان کے ساتھ گفتگو میں مصروف نظر آتیں۔
بھری دوپہر ہو یا شام کا وقت، آنے والے مہمانوں کو کھانا کھلائے بغیر جانے دینے کا کوئی تصور نہ تھا۔
اور اتوار کے دن تو اکثر َرشتہ داروں کا میلہ لگا رہتا تھا. ایک جاتا، دوسرا آتا. کسی کو یہ وضاحت دینے کی ضرورت نہ تھی کہ کیسے آنا ہوا. ملنا ملانا مشرقی روایات کا حصہ رہا ہے جسے آج کے مشینی دور میں ایک بوجھ سمجھا جانے لگا ہے. رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے ملنے کے لیے کسی میت یا شادی کے موقعے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا. مجھے اشفاق احمد کا بیان کردہ وہ واقعہ اکثر یاد آجاتا ہے کہ جب ایک فوتگی کے موقعے پر انہوں نے کچھ بچوں کو بات کرتے سنا جو کہہ رہے تھے کہ ''جب کوئی فوت ہو جائے تو بڑا مزہ آتا ہے. ہم سب اکھٹے ہوجاتے ہیں اور سارے رشتہ دار ملتے ہیں. دوسرا بچہ یہ اندازہ لگانے لگا کہ اب کون فوت ہو گا. نانا نصیرالدین یا پھوپی زہرہ اور اب ہم کس رشتہ دار کے گھر اکٹھا ہوں گے اور خوب کھیلیں گے۔(جاری ہے)
گھر تو آخر اپنا ہے
آج کے دور میں جس قدر سہولیات میسر ہیں اسی قدر ہر شخص وقت کی کمی کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ خوشی غمی کے موقع پر قریبی رشتہ داروں کا قیام آج کے مشینی دور میں ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔
عید کے تہوار کے موقع پر ایک دوسرے کو یاد رکھنا اور دور دراز رشتے داروں کو عید کارڈ بھیجنے جیسی خوب صورت روایت بھی اب دم توڑ چکی ہے۔
مجھے کراچی کے وہ دن بھی یاد ہیں جب اچانک ہنگامے پھوٹ پڑتے اور پورا محلہ کسی ایک مضبوط عمارت والے محلے دار کے گھر پناہ لے لیتا تھا. اس علاقے کے رہنے والوں کو حالات خراب ہونے کی اطلاع بجلی کے کھمبے بجا کردی جاتی تھی۔
فوری طور پر تمام خواتین اور بچے گھر کی نچلی منزل پر اور مرد حضرات اوپری منزل پر دفاعی پوزیشن سنبھال لیتے تھے. آس پاس کے تمام گھر ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے اور کسی بھی ضرورت پڑنے پر سب ایک دوسرے کی مدد کے لیے موجود ہوتے۔چترال کی حسین آنکھ کا پھیلتا ہوا کاجل
آج اگر دیکھا جائے تو عجب دور پرُفتن ہے. سوشل میڈیا پر تو آپ کے ہزاروں دوست موجود ہوں گے لیکن حقیقی زندگی میں تنہائی کا زھر ڈس رہا ہے۔
آج کے دور میں بزرگوں کے تجربے یا ان کی دور اندیشی سے فیض نہیں اٹھایا جاتا بلکہ مشورہ بھی اُن ہی سے لیا جاتا ہے جن کا اسٹیٹس ہائی ہو۔
ملنا ملانا، تعلقات بنانا، تحائف کے تبادلے اور تقریبات میں شرکت کے معیار اب بالکل تبدیل ہوچکے ہیں۔ عید کے تہوار پر اگر کوئی بھولے بھٹکے کم اسٹیٹس رکھنے والا رشتہ دار کال کرکے ملنے کی خواہش کا اظہار کرے تو فوراً کہا جاتا ہے کہ آج تو ہم گھر پہ نہیں ہیں اور اگر بنا بتائے کوئی آ دھمکے تو ایسے تاثر دیا جائے گا کہ آنے والا خود ہی جانے کے لیے پر تول لے۔جھانسی کی رانی سے پونم پنڈت تک
عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شہروں میں لوگ ایک دوسرے سے مفاد کا رشتہ رکھتے ہیں۔ لیکن گاؤں کے لوگ اس مادہ پرستانہ سوچ سے بچے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اس سوچ کی بھی نفی ہوئی جب طویل عرصے کے بعد اپنے آبائی گاؤں جانا ہوا ۔ جانے سے پہلے آنکھوں میں وہی بچپن کا گاؤں بسا ہوا تھا۔ تصور میں گاؤں کی کچی گلیاں، پانی کے کنویں پر گھومتی چرخی، سوندھی مٹّی سے لیپے ہوئے مکان تھے. ٹانگہ کی سواری کرتے ہوئے گھوڑے کی ٹاپوں اور پہیوں سے آنے والی آواز ہمارے کانوں میں موسیقی کی طرح بج رہی تھی۔
دوسروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت
خواتین کے ایک گروپ میں آپس کی بات چیت کے دوران رشتہ داروں کے سلوک اور تحفے تحائف کے تبادلے پر گروپ اراکین کا اظہار خیال نظر سے گزرا۔ تقریباً 50 سے زائد گروپ ممبران نے اپنے تجربات اور خیالات کا اظہار کیا۔ تقریباً سب ہی اپنے رشتے داروں سے نالاں نظر آئے۔
کامیاب عورت اور ناکام ازدواجی زندگی
وقت کو یہ الزام اکثر دیا جاتا ہے کہ بدلتا وقت بہت کچھ بدل دیتا ہے۔
مصنفہ: طاہرہ سید