ایکٹ 2010 ء کے ذریعے بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کیخلاف دائر نظر ثانی درخواستوں پر مزید سماعت پرسوں منگل کو ہوگی

پیر 6 دسمبر 2021 15:37

ایکٹ  2010 ء کے ذریعے بحال ہونے  والے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے سے متعلق ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 دسمبر2021ء) سپریم کورٹ میں  ایکٹ  2010 ء کے ذریعے بحال ہونے  والے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے سے متعلق عدالتی  فیصلے کیخلاف دائر نظر ثانی درخواستوں پر مزید سماعت منگل کو ہوگی ۔ پیر کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے  ایکٹ  2010 ء کے ذریعے بحال ہونے  والے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے سے متعلق عدالتی  فیصلے کیخلاف دائر نظر ثانی درخواستوں پر سماعت کی ۔

  سماعت کے آغاز پر  جسٹس عمر بندیال نے  استفسار کیا کہ کیا سوئی  گیس ملازمین ٹیسٹ اور انٹرویو دےکر بھرتی ہوئے تھے۔ جس پر سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل ) ملازمین  کے وکیل وسیم سجاد نے عدالت کو بتایا کہ واک ان انٹرویوز کے ذریعے بھرتیاں ہوئی تھیں۔

(جاری ہے)

اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ایس این جی پی ایل کے وکیل سے استفسار کیا کہ ختم شدہ کنٹریکٹ گیارہ سال بعد کیسے بحال ہوگئے،جن کے کنٹریکٹ بحال ہوئے انہوں نے کیا کارنامہ انجام دیا تھا،کیا تمام ملازمین  دہشت گردی کی کسی  کارروائی میں زخمی ہوئے تھے۔

عدالتی استفسار  پر ایس این جی پی ایل ملازمین کے وکیل وسیم سجاد  نے بتایا کہ پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت ملازمین کو بحال کیا گیا،پارلیمان اس نتیجہ پر پہنچی تھی کہ ملازمین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے شواہد کہاں ہیں،صرف انہی لوگوں کو کیوں بحال کیا گیا یہ سمجھائیں، ملازمت کے اہل تو بہت سے اور لوگ بھی  ہوں گے جن کی جگہ درخواست گزرا ملازمین  بحال ہوئے، سوئی گیس میں پنشن کتنا عرصہ ملازمت کے بعد ملتی ہے،کیا تعیناتی کالعدم ہونے کے دس سال بعد پینشن مل سکتی ہے۔

اس دوران وکیل وسیم سجاد نے موقف اپنایا کہ عدالت اس حوالے پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث منگوا کر جائزہ لے لے،اس عمر میں ملازمین کہاں جائیں گے۔  اس موقع پر  جسٹس سجاد علی شاہ نے وکیل وسیم سجاد کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ملازمین کی بحالی کا قانون کس طرح آئین کے مطابق ہے، قانون آئین کے مطابق ہونے پر آپ نے ایک دلیل بھی نہیں دی، تحریری دلائل جمع کروائیں ۔

دوران سماعت اینٹیلیجنس بیورو ( آئی بی)  افسران کے وکیل اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آئی بی افسران سول سرونٹس ہیں ان پر عدالتی فیصلہ لاگو نہیں ہوتا،سال 1996 ء میں نگران حکومت نے آئی بی ملازمین کو برطرف کیا تھا، نگران حکومت کو ملازمین کی برطرفی کا اختیار نہیں ہے۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نگران حکومت والے معاملے پر سپریم کورٹ 2000ء  میں فیصلہ دے چکی ہے، فیصلے کے 21 سال بعد کسی اور نظرثانی کیس میں مقدمہ دوبارہ نہیں کھول سکتے۔

اس موقع پر وکیل اعتزاز احسن نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ملازمین بحالی کے قانون کی غلط تشریح کی، عدالت عظمی  کے فیصلے میں ایکٹ کو صحیح سے پرکھا نہیں گیا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر سپریم کورٹ کسی کو برطرف کر دے تو پارلیمنٹ کی قانون سازی سے کسی مخصوص فرد کو بحال نہیں کیا جا سکتا۔  اس دوران درخواست گزار ملازمین کے وکیل  افتخار گیلانی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ خود کہہ چکی ہے کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دے سکتے، قانون سازوں کی بصیرت کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ اپنے فیصلےپر نظر ثانی کرے۔

عدالت عظمی نے کیس کی مزید سماعت (کل ) منگل تک ملتوی کر تے ہوئے  ایس این جی پی ایل  ملازمین کے وکیل وسیم سجاد سے تحریری دلائل طلب کر لیے ۔