ٹک ٹاک پر ممکنہ پابندی کے بارے میں بیجنگ کا موقف 'انتہائی ستم ظریفی' ہے، امریکی سفیر

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 15 مارچ 2024 21:20

ٹک ٹاک پر ممکنہ پابندی کے بارے میں بیجنگ کا موقف 'انتہائی ستم ظریفی' ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 مارچ 2024ء) امریکی ایوان نمائندگان نے بدھ کے روز بھاری اکثریت سے ایک ایسے بل کی منظوری دی تھی، جس کے تحت چینی ملکیت والی اس مقبول ترین ویڈیو شیئرنگ ایپ پر ملک گیر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔

چین نے اس بل کی منظوری پر کڑی تنقید کی ہے، جس کو اس نے واشنگٹن کی ''ڈاکو‘‘ ذہنیت قرار دیا ہے اور قانون سازوں پر ''غیر منصفانہ طور پر غیر ملکی کمپنیوں کو دباؤ میں لانے‘‘ کا الزام لگایا ہے۔

امریکی سفیر نیکولس برنز نے جمعہ کو بیجنگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کا یہ موقف بلاجواز ہے کیونکہ چینی حکام نے بہت سے مغربی ویب پلیٹ فارمز کو اپنے ملک میں کام کرنے سے روک رکھا ہے۔

برنز کا مزید کہنا تھا،''مجھے یہ انتہائی ستم ظریفی لگتی ہے کہ یہاں چین میں حکومتی اہلکار امریکہ کو اس بحث کے لیے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جو ہم اس وقت ٹک ٹاک پر کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘ امریکی سفیر نے یہ بیانات ایسٹ ویسٹ سینٹر کے زیر اہتمام منعقدہ ایک آن لائن سیمینار کے دوران دیے۔ ایسٹ ویسٹ سینٹر امریکہ میں قائم ریسرچ کا ایک ادارہ ہے۔

سیمینار میں امریکی عوامی سفارت کاری سے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں برنز کا کہنا تھا، ''وہ (چینی حکام) ٹک ٹاک کو 1.4 بلین چینی باشندوں کے لیے بھی دستیاب نہیں ہونے دیں گے۔

‘‘

چین کی حکومت آن لائن معلومات کے پھیلاؤ کو سختی سے کنٹرول کرتی ہے اور سیاسی طور پر حساس سمجھے جانے والے سوشل میڈیا مواد کو بھی حذف کر دیتی ہے اور اس نے گوگل، فیس بک اور انسٹاگرام سمیت کئی مغربی پلیٹ فارمز کو ملک میں کام کرنے سے روک رکھا ہے۔

ٹک ٹاک کی مالک چینی کمپنی بائٹ ڈانس بھی چین کے اندر Douyin کے نام سے ٹک ٹاک کا ایک الگ ورژن چلاتی ہے۔

چین نے جمعہ کو برنز کے تبصروں کے جواب میں کہا کہ ٹک ٹاک کے حوالے سے امریکی موقف '' دراصل ستم ظریفی‘‘ ہے۔کچھ مغربی حکومتوں نے ٹک ٹاک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ الزام لگایا ہے کہ اس ایپ کی ملکیت اسے بیجنگ کے تابع بناتی ہے تاہم ٹک ٹاک ایسے دعووں کی تردید کرتی ہے۔

امریکی کانگریس کی جانب سے منظور کیے گئے بل پر ٹک ٹاک کے تخلیق کاروں اور صارفین نے بھی تنقید کی ہے۔ توقع ہے کہ امریکی سینیٹ میں اسے سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اُدھر وائٹ ہاؤس نے اشارہ دیا ہے کہ اگر یہ بل صدر جو بائیڈن کی میز تک پہنچ جاتا ہے تو وہ بل کو باقاعدہ قانون کی شکل دینے کے لیے اس پر اپنے دستخط کردیں گے۔

ک م / ش ر(اے ایف پی)