پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن نے فیڈرل بیورو آف ریونیو(ایف بی آر)کو ٹھیکے پردینے کی تجویزپیش کردی

سمیں بلاک کرنے کی ایف بی آر کی اپروچ مضحکہ خیز ہے یہ صرف ٹیلی کام سیکٹر کے ساتھ ایسا نہیں کر رہے بلکہ ہر کاروباری سیکٹر اس سے متاثر ہے‘بنک‘ ریئل سٹیٹ ‘ اور آٹو کمپنیوں ٹیکس جمع کرکے دے رہی ہیں تو 30 ہزار سے زیادہ کا عملہ‘ محکمے کے افسران اور اہلکاروں کی بھاری تنخواہوں اور عمارتوں سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ ایف بی آر خود صرف دو فیصد ٹیکس جمع کرتا ہے .پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر محسن ندیم‘لاہور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری عبدالوحید کی گفتگو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 13 مئی 2024 23:22

پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن نے فیڈرل بیورو آف ریونیو(ایف بی آر)کو ٹھیکے ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13مئی۔2024 ) پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن نے تجویزپیش کی ہے کہ فیڈرل بیورو آف ریونیو(ایف بی آر)کو ٹھیکے پر دیدیا جائے پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر محسن ندیم کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی یہ اپروچ مضحکہ خیز ہے یہ صرف ٹیلی کام سیکٹر کے ساتھ ایسا نہیں کر رہے بلکہ ہر کاروباری سیکٹر اس سے متاثر ہے.

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اپنے اہداف کو پوار کرنے کے لیے ایف بی آر ریئل سٹیٹ ‘ بینکوں اور آٹو کمپنیوں پر دباﺅ ڈال کر ٹیکس جمع کرتا ہے اس بار نان فائلرز سے ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے ٹیلی کام سیکٹر کو امتحان میں ڈال رکھا ہے اگر ٹیلی کام کمپنیوں نے ہی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے قربانی دینی ہے تو ایف بی آر میں ملازمین اور افسران کے لاو لشکر کی کیا ضرورت ہے؟.

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کا تقریباً 30 ہزار سے زیادہ کا عملہ ہے اور 98 فیصد ٹیکس کمپنیاں ٹیکس ودہولڈ کر کے اکٹھا کرتی ہیں صرف دو فیصد ٹیکس ایف بی آر خود اکٹھا کرتا ہے محکمے کے افسران اور اہلکاروں کی بھاری تنخواہوں اور عمارتوں سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے اپریل میں ایف بی آر نے 63 ارب روپے کم ٹیکس اکٹھا کیا اس سے بہتر ہے کہ ایف بی آر کو ٹھیکے پر دے دیا جائے اس سے ملک کو اربوں روپے کی ماہانہ بچت ہو سکتی ہے.

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق لاہور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری عبدالوحید نے کہا کہ ایف بی آر کا موقف ہے کہ جن افراد کی موبائل سم بند کرنے کا کہا گیا ہے ان کے بینک اکاﺅنٹس میں بڑی ٹرانزیکشنز ہو رہی ہیں لیکن وہ ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کر رہے تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایف بی آر اپنے اختیارات کیوں استعمال نہیں کر رہا؟ اگر ایف بی آر کو پتہ ہے کہ فلاں شخص بڑی ٹرانزیکشنز کرنے کے بعد بھی ٹیکس ادا نہیں کر رہا توقانون کے مطابق ٹیکس نادہندہ کو تین نوٹس بھیجے اس کے بعد آرڈر پاس کرے اور پھر ریکوری کا آرڈر بھیجے اور بینک اکاﺅنٹ اور اس میں موجود رقم کو منجمندکر دے اس سے ٹیکس ریکوری بھی زیادہ ہو گی اور ٹیکس فائلرز میں بھی تیزی سے اضافہ ہوگا.

عبدالوحید نے کہا کہ یہ سب سے زیادہ تیز اور موثر قانونی طریقہ ہے موبائل سمیں بند کرنے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے پاکستان میں ایک سو روپے کی نئی سم مل جاتی ہے کوئی بھی شخص سم بند ہونے پر، بیٹے، بھائی، بیوی کے نام کی سم نکلوا لے گا وہ اپنا کاروبار اور معاملات زندگی آسانی سے چلائے گا اور ایف بی آر کو بھی ٹیکس فائلرز میں اضافہ بھی نہیں ہوگا ایف بی آر کو سوچنا چاہیے کہ اپنے اختیارات استعمال کرنے کی بجائے دوسروں کے اختیارات کی بھیک مانگنا مناسب نہیں.

ایک ٹیلی کام کمپنی کے ڈائریکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت ٹیلی کام کمپنیاں تقریباً 80 ارب روپے کا ٹیکس ایف بی آر کو دے رہی ہیں ہر کال، میسج اور انٹرنیٹ پیکج پر عوام سے ٹیکس وصول کر کے ملکی خزانے میں جمع ہوتا ہے اس فیصلے سے ایف بی آر کی آمدن میں بھی کمی آ سکتی ہے اس کے علاوہ ٹیلی کام سیکٹر نے صارفین سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کر رکھا کہ وہ ایف بی آر کے کہنے پر ان کی سم بند کردیں گے ایسا کرنے سے صارفین ٹیلی کام کمپنی پر کیسز کر سکتے ہیں جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم ہوگا جو ملک کے لیے اچھا نہیںانہوں نے بتایا کہ ٹیلی کام کمپنیاں بیرون ممالک کے سرمائے سے چل رہی ہیں اگر ان کی آمدن میں کمی ہو گی تو بیرونی سرمایہ کاروں کو ملک میں ٹھہرانا مشکل ہو سکتا ہے ایک طرف سعودی سرمایہ کاروں سے سرمایہ کاری کی درخواست کی جا رہی ہے اور دوسری طرف پہلے سے موجود سرمایہ کار کمپنیوں کے منافع پر لات مارنے کی تیاری ہو رہی ہے یہ مناسب نہیں.

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ اس وقت موبائل سمیں منی بینک اکاﺅنٹس کے طور پر کام کر رہی ہیں، بینکنگ لین دین متاثر ہو گا براہ راست ترسیلات زر اور خاندان کے افراد کی مالی مدد سمیت کئی معاملات متاثر ہو سکتے ہیںانہوں نے کہا کہ پاکستان میں جب سرکاربغیرسوچے سمجھے کسی کام کو کرنے کا ٹھان لیتی ہے تو اس کے راستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں رہتی ملک میں ٹوئٹر بند ہے کس نے کیا، کیوں کیا اور کیسے کیا؟ کچھ معلوم نہیں لیکن جب سرکار نے کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر اس نے کسی سے کچھ نہیں پوچھا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ایف بی آر ٹیکس فائلرز اور آمدن بڑھانا نہیں چاہتا اس لیے ایسے بچکانہ فیصلے کررہا ہے.