مسلح تنازعے کے سیاہ بادل تلے جینے کی تاریخی جامع مسجد

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 18 مئی 2024 18:00

مسلح تنازعے کے سیاہ بادل تلے جینے کی تاریخی جامع مسجد

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مئی 2024ء) جینے میں مٹی کی اینٹوں سے تعمیر کردہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد کی عمارت سن 2016 سے یونیسکو کی خطرے سے دوچار ثقافتی ورثے کی حامل عمارات کی فہرست میں شامل ہے۔ ایک دور تھا جب وسطی مالی کا شہر جینے اسلامی تعلیمات کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور یہ مسجد شہر کی شان مانی جاتی تھی۔ ہر سال دنیا بھر سے ہزارہا سیاح اس کا رخ کرتے تھے۔

اب البتہ مالی میں حکومتی فورسز، جہادی گروہ اور کئی دیگر عسکریت پسند گروپوں کے مابین مسلح تصادم کے سیاہ بادل اس مسجد اور اس سے جڑی تاریخ پر چھائے ہوئے ہیں۔

روسی کرائے کے قاتلوں کی مالی میں تعیناتی پر تشویش

افریقہ، کلونیل ازم اور نیشنل ازم

کولا باہ نے حالات کو اپنی زندگی پر اثر انداز ہوتے دیکھا ہے۔

(جاری ہے)

وہ جینے میں ٹور گائیڈ کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔

کاروبار اچھا تھا، گزر بسر باآسانی ہو جاتا تھا۔ اس کے اب نو بچے ہیں اور حالات کافی بدل چکے ہیں۔ اب سیاح نہیں آتے اور کولا باہ اکثر اوقات بے روزگار گھر پر بیٹھا رہتا ہے۔ جب اسے نقد رقم کی ضرورت پڑتی ہے، تو وہ اپنے مال مویشی فروخت کر کے کام چلا لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مقامی لوگوں کا ایسا ماننا تھا کہ حالات کبھی نہ کبھی بہتر ہو جائیں گے۔

کولا باہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا، ''لیکن بہت وقت گزر چکا ہے اور اب لگتا ہے کہ یہ خواب ایک خواب ہی رہے گا،‘‘

جینے کا تاریخی شہر

جینے سب صحارا افریقہ کے قدیم ترین قصبوں میں سے ایک ہے۔ کبھی یہ شہر ایک اہم منڈی کی حیثیت رکھتا تھا اور ٹرانس صحارن سونے کی تجارت میں بھی ایک اہم لنک کے طور پر مانا جاتا تھا۔

شہر کے پرانے حصے میں اس دور کے قریب دو ہزار مکانات اب بھی کھڑے ہیں۔

'شہر کی عظیم مسجد‘ کو سن 1907 میں 13 ویں صدی کی ایک پرانی مسجد کی جگہ بنایا گیا تھا۔ مقامی لوگ ہر سال اس کی ''دیواروں پر پلستر‘‘ کرتے ہیں، جو کہ اب ایک روایت بن چکی ہے جو پورے کے پورے شہر کو ساتھ لاتی ہے۔

مالی کا تنازعہ کب اور کیسے شروع ہوا؟

مالی کا تنازعہ سن 2012 میں ایک بغاوت کے بعد شروع ہوا جس میں طاقت کا ایک خلا سامنے آیا۔

یوں جہادی گروپوں نے شمالی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ فرانسیسی قیادت میں کیے گئے فوجی آپریشن نے جہادیوں کو شہروں سے باہر دھکیل دیا۔ لیکن یہ کامیابی زیادہ طویل نہ ثابت ہوئی۔

جہادیوں نے دوبارہ منظم ہو کر مالی کے شہروں اور فوجی اڈوں پر حملے شروع کر دیے۔ ساتھی ہی اقوام متحدہ، فرانسیسی اور علاقائی افواج کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ عسکریت پسندوں نے القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ سے بیعت کا اعلان کر دیا۔

موجودہ حالات

مالی کے دارالحکومت بماکو میں نیشنل ٹورازم ایجنسی کے ڈائریکٹر سیدی کیٹا کا کہنا ہے کہ تشدد بڑھنے کے بعد سیاحت میں بھی تیزی سے کمی آئی۔ بر اعظم افریقہ میں سونے کے سب سے بڑے پروڈیوسرز میں شمار ہونے کے باوجود مالی دنیا بھر میں سب سے کم ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے۔ ملک کی قریب بائیس ملین کی آبادی کا نصف حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔

سیاحت میں کمی کے بعد مقامی لوگوں کے پاس مواقع انتہائی محدود ہیں۔

وسطی و مغربی افریقی ممالک میں سیاسی عدم استحکام کی لہر میں سن 2020 سے اب تک مالی میں دو مرتبہ پھر سے بغاوت کی کوشش ہو چکی ہے۔ 2021ء میں کرنل اسیمی گوئیٹا نے مالی میں معاملات سنبھالے، تو فرانسیسی امن دستوں کو اگلے سال بے دخل کر دیا۔ اور اس سے اگلے سال اقوام متحدہ کے امن دستوں سے بھی کہہ دیا کہ وہ اپنا دس سالہ امن مشن قبل از وقت ختم کریں۔

گوئیٹا کا دعویٰ ہے کہ وہ مسلح گروہوں کو کچل دیں گے مگر دفاعی تجزیہ کاروں کے بقول دراصل وہ جنگ ہار رہے ہیں اور دن بدن علاقے ان کے کنٹرول سے نکلتے جا رہے ہیں۔

ایسے میں جینے کی تاریخی مسجد جیسے ثقافتی مراکز کو خطرہ لاحق ہے۔

ع س / ع ت (اے پی)