بھارتی کالج کے مسلم پرنسپل پر ہندو مخالف اور ملک دشمنی کے الزامات ڈیڑھ سال بعد غلط قرار

دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے ایف آئی آر غیرمعقول ہونے کے سوا کچھ نہیں، بھارتی سپریم کورٹ

اتوار 19 مئی 2024 17:55

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مئی2024ء) بھارتی سپریم کورٹ نے لا کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر انعام الرحمان پر لگائے گئے ہندو مخالف اور ملک دشمنی کے الزامات کو ڈیڑھ برس بعد غلط قرار دے دئیے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع اندور کے سرکاری لاکالج کے پرنسپل ڈاکٹر انعام الرحمان پر ہندو انتہا پسند حکمران جماعت بی جے پی کی طلبہ ونگ (اے بی وی پی) نے کالج لائبریری میں ہندو اور ملک مخالف کتابیں رکھنے کے الزامات لگائے تھے۔

رپورٹ کے مطابق پرنسپل پر خود نمازپڑھنیاور بچوں کو بھی نماز پڑھنے کی ترغیب دینے، لا کالج میں مسلمان اساتذہ بھرتی کرنیکا بھی الزام تھا، ان الزامات کی بنا پر مسلم پرنسپل انعام الرحمان سے حکومت نے زبردستی استعفیٰ لے لیا تھا اور ان پر مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

میڈیا رپورٹس کے مطابق کالج پرنسپل نے بی جے پی کے طلبہ ونگ کے الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے حکومتی فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا کہ کالج پرنسپل کا معاملہ ظلم و ستم کا معاملہ لگتا ہے، دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے ایف آئی آر غیر معقول اور بے ہودہ الزام ہونے کے سوا کچھ نہیں۔بھارتی سپریم کورٹ نے ڈاکٹر انعام الرحمان پر درج کی گئی ایف آئی آر کو بیہودہ قرار دیتے ہوئے کالج پرنسپل پر لگے الزامات کو ڈیڑھ برس بعد غلط قرار دیدیا۔