کیا بمبل بیز دنیا سے معدوم ہو جائیں گی؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 19 مئی 2024 21:20

کیا بمبل بیز دنیا سے معدوم ہو جائیں گی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مئی 2024ء) دنیا بھر میں بمبل بیز یا شہد کی بڑی مکھی کی 250 سے زائد انواع پائی جاتی ہیں۔ یہ شہد کی مکھی سے سائز میں تھوڑی بڑی ہوتی ہیں اور ان میں فر بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ شہد کی مکھی کی طرح بمبل بی بھی انسانی معاشرے کا ایک اہم حصہ رہی ہیں جو پھول دار پودوں اور فصلوں کی پولی نیشن میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کو قابو میں رکھنے کرنے کے سات طریقے

دریائی کٹاؤ نے کشتیوں پر بسا دیا

بمبل بی شہد کی مکھیوں کی طرح چھتے بنانے کے بجائے زمین کے اندر اور گھنی گھاس میں گھونسلے بناتی ہیں جن کا اندرونی ڈھانچا حیران کن ہوتا ہے۔ ایک گھونسلے میں 50 سے 400 تک مکھیاں رہتی ہیں۔

گذشتہ 180 برس کے دوران دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات کے مطابق بمبل بیز کے گھونسلوں کا اوسط درجۂ حرارت 28 سے 32 سینٹی گریڈ ڈگری تک ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

جبکہ 36 سینٹی گریڈ درجۂ حرارت تک یہ زندہ تو رہ سکتی ہیں مگر ان کی انڈے دینے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے۔

گلوبل وارمنگ اور بمبل بیز

مؤقر سائنسی جریدے فرنٹئیر آف بی سائنسز میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتے درجۂ حرارت سے بمبل بیز کے گھونسلوں کا درجۂ حرارت 36 سینٹی گریڈ ڈگری سے تجاوز کر گیا ہے۔

شدید گرمی میں ان کے لاروا کی نشونما نہیں ہو پاتی اور وہ فورا ہی مر جاتے ہیں۔

درجۂ حرارت بڑھنے سے بمبل بیز کن مسائل سے دو چار ہیں؟

پیٹر جی کیون (Peter G Kevan)یونیورسٹی آف گیلف کینیڈا سے وابستہ ماہر ماحولیات اور اس تحقیق کے مرکزی مصنف بھی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بمبل بی میں یہ قدرتی صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے پروں کو مسلسل ہلا کر اپنے گھونسلوں کو ہوا سے ٹھنڈا کر لیتی ہیں۔

لیکن اگر باہر ماحول کا درجۂ حرارت بہت زیادہ بڑھ جائے تو ان کی یہ تکنیک کار گر نہیں رہتی۔

کیون بتاتے ہیں کہ بمبل بیز کی نشوونما کے لیے اوسط درجۂ حرارت 28 سے 32 سینٹی گریڈ ڈگری ہے۔ جبکہ حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں ریکارڈ توڑ گرمی سے ان مکھیوں کے گھونسلوں کا درجۂ حرارت 36 سینٹی گریڈ ڈگری سے تجاوز کر گیا ہے، جس سے ان کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

بڑھتا درجۂ حرارت بمبل بی کالونیوں کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟

پیٹر جی کیون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی ٹیم نے دوران تحقیق نوٹ کیا کہ گلوبل وارمنگ کے اثرات کسی ایک علاقے میں رہنے والی مکھیوں پر نہیں ہیں بلکہ اجتماعی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بمبل بیز کو "سپر آرگنیزم" کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بہت سے دیگر حشرات کی طرح کالونیوں میں رہتی اور بہت منظم زندگی گزارتی ہیں۔

کیون کے مطابق بمبل بیز اپنی صحت، بقا اور تولید کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔ اگر ماحول کا درجۂ حرارت خاص حد سے بڑھ جائے تو ان کا لاروا فورا ہی مر جاتا ہے جس سے ان کی پوری کالونی متاثر ہوتی ہے۔

پیٹر جی کیون بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں بمبل بیز کی جو 250 سے زائد انواع پائی جاتی ہیں وہ تمام ایک ہی درجۂ حرارت کی عادی ہیں اور زیادہ تر ٹھنڈے یا معتدل موسم والے علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔

2023 دنیا بھر میں گرم ترین سال تھا جبکہ 1980 سے اب تک دس گرم ترین سال گزر چکے ہیں جن میں درجۂ حرارت کے پچھلے ریکارڈ ٹوٹے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس دوران صرف امریکہ میں بمبل بی کی آبادی میں نوے فیصد کمی نوٹ کی گئی ہے۔ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے کیونکہ یہ مکھیاں فصلوں، پھول اور پھلدار پودوں کی پولی نیشن میں اہم کردار اداکرتی ہیں۔ کیون کے مطابق بمبل بی کی آبادی میں کمی کا برا ہ راست اثر انسانی فوڈ چین پر پڑے گا۔

بمبل بیز کو ناپید ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟

کیون جی پیٹرسن بتاتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ سے کرۂ ارض پر کوئی زی روح محفوظ نہیں رہ سکا۔ بقا کے خدشے سے دوچار دیگر انواع کی طرح بمبل بیز بھی ایکوسسٹم میں ہونے والی تبدیلیوں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ان کے مطابق اس تحقیق سے ان کی ٹیم دراصل یہ سمجھنا چاہتی تھی کالونی کی صورت میں یہ مکھیاں کس طرح گھونسلوں کا اندرونی درجۂ حرارت منظم رکھتی ہیں۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ اس حوالے سے دنیا بھر تحقیق جاری ہے اور سائنسدانوں کی بہت سی ٹیمیں جدید آلات جیسے زیر زمین راڈار اور ریسپائیرومیٹری (سانس کا تجزیہ) سے بمبل بی کے گھونسلوں کی ساخت و بناوٹ اور ان کی کالونیوں کی ایکولوجی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کیون پرامید ہیں کہ مستقبل میں ان تحقیقات کو بڑے پیمانے پر لاگو کر کے تھرمل نیوٹرل زونز بنائے جا سکیں گے۔ ان زونز سے نا صرف بمبل بیز بلکہ معدوم ہوتی دیگر انواع کو محفوظ کرنا ممکن ہو جائے گا۔