چین سیاسی اور فوجی دھمکیاں دینا بند کرے، تائیوان کے نومنتخب صدر کا خطاب

DW ڈی ڈبلیو پیر 20 مئی 2024 16:20

چین سیاسی اور فوجی دھمکیاں دینا بند کرے، تائیوان کے نومنتخب صدر کا ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 مئی 2024ء) تائیوان میں حکمران ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) کےلائی چنگ تے نے آج پیر کے روز اس خود مختار جزیرے کے صدر کے طور پر حلف اٹھا لیا ۔ انہوں نے اپنے افتتاحی خطاب میں بیجنگ پر زور دیا کہ وہ تائیوان کو سیاسی اور فوجی دھمکیاں دینا بند کرے۔ صدر لائی نے زور دیا کہ ان کی انتظامیہ آبنائے تائیوان میں موجودہ صورت حال کو برقرار رکھے گی۔

لائی چنگ تے نے دارالحکومت تائی پے میں صدارتی عمارت کے سامنے اپنی افتتاحی تقریب میں شریک ہجوم کو بتایا، ''امن ہی واحد آپشن ہے۔‘‘ انہوں نے چین پر زور دیا کہ وہ تائیوان کے ساتھ آبنائے تائیوان کے ساتھ ساتھ وسیع تر خطے میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری میں حصہ دار بنے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ دنیا جنگ کے خوف سے پاک ہو۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آبنائے تائیوان کے آر پار تعلقات کے مستقبل کا دنیا پر فیصلہ کن اثر پڑے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چین کو تائیوان کے وجود کی حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے اور بیجنگ ''نیک نیتی کے ساتھ تصادم (کو روکنے) پر بات چیت کا انتخاب کرے اور برابری اور وقار کے اصولوں کے تحت تائیوان کے عوام کی منتخب کردہ قانونی حکومت کے ساتھ تعاون کرے۔

‘‘

نئے تائیوانی صدر کا کہنا تھا، ''یہ باہمی بنیادوں پر سیاحت کی بحالی اور تائیوان کے اداروں میں طلبا کے اندراج سے شروع ہو سکتا ہے۔‘‘ صدر لائی نے زور دے کر کہا کہ تائیوان دیگر جمہوریتوں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے گا۔ لائی، جو کھیلوں میں بیس بال کے فین ہیں، نے کھیلوں کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا، ''ہم غلط معلومات کا مقابلہ کرنے، جمہوریت مضبوط کرنے، چیلنجوں سے نمٹنے اور تائیوان کو جمہوری دنیا کا 'موسٹ ویلیو ایبل پلیئر‘ (ایم وی پی) بنانےکے لیے لیے مل کر کام کریں گے۔

‘‘

لائی چنگ تے نے کہا کہ تائیوان نے پہلے ہی اعلیٰ درجے کے سیمی کنڈکٹرز کی صنعتی تیاری میں مہارت حاصل کر لی ہے اور اب وہ اے آئی سے متعلقہ ٹیکنالوجی کی ترقی کو مزید فروغ دے گا، ''ہم عالمی سطح پر سپلائی چینز میں ایک اہم کھلاڑی ہیں۔‘‘

امریکی مبارکباد

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے لائی چنگ تے کو تائیوان کے پانچویں جمہوری صدر کے طور پر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔

ایک بیان میں بلنکن نے کہا، ''ہم اپنے مشترکہ مفادات اور اقدار کو آگے بڑھانے، اپنے دیرینہ غیر سرکاری تعلقات کو مزید گہرا کرنے اور آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے صدر لائی اور تائیوان کے ساتھ مل کر سیاسی میدان میں کام کرنے کے منتظر ہیں۔‘‘

کوئلے کے کان کن کے بیٹے سے صدر تک کا سفر

تائیوان کی وزارت خارجہ کے مطابق نئے صدر کی افتتاحی تقریب اور متعلقہ سرگرمیوں میں 51 وفود میں شامل 500 سے زائد غیر ملکی مہمانوں نے شرکت کی، جن میں تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھنے والے آٹھ ممالک کے قومی رہنما بھی شامل ہیں۔

64 سالہ لائی کوئلے کی کان میں کام کرنے والے ایک کان کن کے بیٹے اور خود پیشے کے اعتبار سےایک تربیت یافتہ معالج ہیں۔

وہ 67 سالہ سائی انگ وین کی جگہ 23 ملین سے زائد کی آبادی والے اس خود مختار جزیرے کی قیادت کریں گے۔ تائیوان میں 1949ء سے آزاد حکومت قائم ہے۔

سائی، جنہوں نے 2016 ء میں تائیوان کی پہلی خاتون صدر کے طور پر تاریخ رقم کی تھی، صدارتی عہدے کی زیادہ سے زیادہ دو مدتیں پوری کرنے کے بعد پھر انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتی تھیں۔

انہوں نے صدراتی دفتر میں آٹھ سال تائیوان اور چین کے درمیان تعلقات میں جمود کی صورتحال کو برقرار رکھتے ہوئے اور ایک پیچیدہ جغرافیائی سیاسی صورتحال کے درمیان تائیوان کی بین الاقوامی موجودگی کو اجاگر کرتے ہوئے گزارے۔

چین سے خطرہ

چینی کمیونسٹ پارٹی تائیوان کی ڈی پی پی کو ایک علیحدگی پسند تنظیم سمجھتی ہے اور اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر اس پارٹی نے اس جزیرے کی آزادی کی طرف کوئی باضابطہ قدم اٹھایا، تو چین تائیوان پر حملہ کر دے گا۔

ڈی پی پی کا کہنا ہے کہ تائیوان پہلے ہی ایک آزاد ریاست کے طور پر کام کر رہا ہے اور اسے کوئی باضابطہ اعلان کرنے کی ضرورت نہیں۔

چین کی دھمکیوں کے پیش نظر صدر سائی کی انتظامیہ نے تائیوان کی دفاعی فوجی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے اور خطے میں اجتماعی ڈیٹرنس کو یقینی بنانے کی خاطر ہم خیال ممالک کے ساتھ تعاون کی حکمت عملی اپنائی تھی۔

لائی نے جنوری کے انتخابات میں کامیابی کے بعد سے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ان کی انتظامیہ صدر سائی کے دور میں رکھی گئی بنیادوں کو مضبوط کرتی رہے گی اور تائیوان کو عالمی معیشت میں اپنا ناگزیر کردار ادا کرتا رہنے دے گی۔

جب تائیوان کی بات آتی ہے تو امریکہ ایک خاص حد تک تزویراتی ابہام کو برقرار رکھتا ہے، یعنی واشنگٹن سرکاری طور پر صرف بیجنگ حکومت کو تسلیم کرتا ہے لیکن وہ 1979ء کے تائیوان تعلقات ایکٹ کے باعث قانونی طور پر تائیوان کی اس کی دفاعی صلاحیتوں میں مدد کرنے کا پابند بھی ہے۔

ش ر⁄ م م ( ڈی پی اے)