}بلوچستان کے کسان مہنگی کھاد،اسپرے،بیج خریدنے کی سکت نہیں رکھتے

کھاد کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے میں حکومتی دعوے تاحال بے سود ثابت ہیں،چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹر محمد عبدالقادر

اتوار 26 مئی 2024 22:25

<کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 مئی2024ء) چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے پیٹرولیم و رسورسز اور سیاسی و اقتصادی امور کے ماہر سینیٹر محمد عبدالقادر نے کہا ہے کہ کھاد کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے میں حکومتی دعوے تاحال بے سود ثابت ہوئے ہیں اور کسانوں کو کھاد کی کمیابی اور مہنگے داموں فراہمی کی شکایات بدستور موجود ہیں کھاد کی طلب و رسد میں فرق، بلیک میں فروخت، ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ جیسے عوامل اس کی قیمتوں میں اضافے کا باعث ہیں تو مہنگی گیس سے پیداواری لاگت کے ساتھ کارخانہ دار اور ڈیلر اپنے منافع کی شرح بھی بڑھا دیتے ہیں طلب پوری نہ ہونے سے کثیر مقدار میں کھاد درآمد کرنی پڑ رہی ہے اور کارخانوں کو گیس پر سبسڈی دی جارہی ہے اب وفاقی کابینہ نے ایک بڑا فیصلہ کرتے ہوئے کھاد کے کارخانوں کے لئے سبسڈی مکمل طور پر ختم کرنے کی منظوری دی ہے۔

(جاری ہے)

یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں سینیٹر محمد عبدالقادر نے کہا کہ ان کارخانوں کو اس وقت 217روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سبسڈی مل رہی ہے اور انہیں اس وقت 1597روپے فی ایم ایم بی ٹی یو پر گیس سپلائی کی جا رہی ہے کابینہ کے فیصلے پر عملدرآمد کے بعد کارخانوں کو فراہم کی جانے والی قیمت 1814 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہوجائے گی حکومت کا موقف ہے کہ کھاد کے کارخانوں کو سبسڈی دینے سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا اور وہ انہیں براہ راست سبسڈی دینے کا ارادہ رکھتی ہے یہ اچھی بات ہے لیکن یہ بھی پیش نظر رہے کہ کارخانوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے سے کھاد کی پیداواری لاگت بڑھے گی جس سے بالاآخر کسان ہی متاثر ہوگا۔

انہوں نے کہا ہے کہ حکومت پرآئی ایم ایف کا دباو بھی ہے اور اس نے گزشتہ سال بھی کھاد کے کارخانوں کو گیس سبسڈی دینے کی مخالفت کی تھی اور فرٹیلائزر مینوفیکچررز کے لئے گیس کی قیمتوں میں 278روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔ آئی ایم ایف پروگراموں میں سبسڈی ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ بن گیاہے اس سے پہلے کہ درآمدی کھاد پر انحصار کرنا پڑے اس پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہو گیا ہے اگر حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں سنجیدہ ہے تو اسے زراعت کے شعبے پر خصوصی توجہ دینی ہو گی کسانوں کو در پیش مسائل کا حل تلاش کئے بغیر سستی اجناس کا حصول ممکن نہیں بلوچستان کے کسانوں کی مالی حالت دیگر صوبوں کے برعکس زیادہ کمزور ہی. وہ مہنگی کھاد، اسپرے،بیج وغیرہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتا اسکو ریلیف فراہم کرنا بھی حکومت کے پیش نظر ہونا چاہئے۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ توانائی کا بحران سنگین تر ہونے سے پہلے حکومت کو مربوط اور جامع حکمت عملی تیار کرنا ہوگی گیس کے گھریلو صارفین ہوں یا صنعتی گیس کے نرخوں میں توازن برقرار رکھنے سے ہی روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے سستی گیس کی فراہمی سے ہی کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکا جا سکتا ہے فی ایکڑ پیداواری لاگت کم ہونے سے اجناس کی قیمتوں پر قابو برقرار رکھا جا سکتا ہے عوام کو ریلیف دینا حکومت کی اولین ترجیح ہے تو کسان بھی عوام ہیں انہیں بھی ریلیف دینے کیلئے بھر پور اقدامات اٹھانے ہونگے مہنگی کھاد درآمد کر کے کسانوں کے سستے داموں فراہم نہیں کی جا سکتی اسکے لئے کھاد کے کارخانوں کو مہیا کی جانے والی گیس کے نرخوں کو کم سے کم سطح پر لانا ہو گا سستی گیس کی فراہمی جیسے اقدامات اٹھانے کے بعد کھادوں کی قیمتوں پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ کسانوں کو کھاد مہنگے داموں فروخت نہ کی جا سکے۔