سرگودھا میں مسیحیوں پر حملہ، مزید گرفتاریاں اور مقدمات

DW ڈی ڈبلیو پیر 27 مئی 2024 13:40

سرگودھا میں مسیحیوں پر حملہ، مزید گرفتاریاں اور مقدمات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مئی 2024ء) پاکستانی پولیس نے پیر کے دن بتایا ہے کہ سرگودھا کی مجاہد کالونی میں مسیحیوں پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث مجموعی طور پر چوالیس افراد کی شناخت کر لی گئی ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق کم ازکم تینتیس افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔

مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے کچھ صفحات کو نذر آتش کرنے کی خبروں کے بعد ہفتے کے دن مسلمانوں کے مشتعل ہجوم نے سرگودھا کی مجاہد کالونی میں یہ حملہ کیا تھا۔

پولیس نے بتایا ہے کہ سوشل میڈیا فوٹیج اور دیگر ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اس حملے میں ملوث مزید افراد کی شناخت کی جا رہی ہے۔

علاوہ ازیں تین تا چار سو نامعلوم افراد کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔

(جاری ہے)

پولیس کے مطابق مشتعل ہجوم کی طرف سے حملے کے باوجودمسیحی کمیونٹی کے افراد کو 'بچا لیا گیا‘۔ تاہم اس دوران کم از کم دو مسیحی افراد زخمی ہوئے، جنہیں طبی امداد کے لیے قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

’تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات ناقابل قبول‘

پاکستانی مذہبی جماعتیں اور انتخابی سیاست میں ناکامی

سرگودھا پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان اسد اعجاز ملہی نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ہفتے کے دن دو مسیحی افراد کے گھروں کے باہر قرآن کے نذر آتش کردہ کچھ صفحات ملے تھے، جس کے بعد مقامی مسلم آبادی نے ان مسیحیوں پر 'توہین مذہب‘ کا الزام عائد کر دیا۔

اس مشتعل ہجوم نے مقامی مسیحی کمیونٹی کے گھروں میں گھسنے کی کوشش کی جبکہ قریب ہی واقع جوتے بنانے کی ایک فیکٹری کو نذر آتش کر دیا، جس کی وجہ سے فیکٹری اور اس سے ملحق گھروں کو آتشزدگی سے شدید نقصان پہنچا۔

پاکستان میں بلاسفیمی کے الزامات عائد کرنا معمول کی بات ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق کچھ کیسوں میں تو ذاتی دشمنیوں کا بدلہ لینے کی خاطر بھی ایسے الزامات لگا دیے جاتے ہیں، اس لیے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں ان قوانین میں اصلاحات لائی جائیں۔

پاکستان میں ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ کرسچین کمیونٹی کو 'مشتعل ہجوم سے سنگین خطرات‘ لاحق ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے ہی الزامات عائد کرتے ہوئے اقلیتی کمیونٹی کو حملوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب و رسالت کا معاملہ انتہائی حساس ہے۔ اس اسلامی ملک میں صرف الزام کی بنیاد پر ہی مشتعل ہجوم اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہلاک کر سکتا ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان اور اداروں کا کہنا ہے کہ توہین مذہب سے متعلق قوانین کا اکثر ہی غلط استعمال کیا جاتا ہے۔

گزشتہ سال بھی پاکستان کے مشرقی شہر جڑانوالہ میں ایسا ہی ایک واقعہ رونما ہوا تھا، جس میں دو مسیحیوں پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے مسلمانوں کے مشتعل ہجوم نے متعدد گرجا گھروں اور مسیحیوں کے درجنوں گھروں کو نذر آتش کر دیا تھا۔

ع ب / ا ا (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)