Andar Ka Kamal - Article No. 2423

Andar Ka Kamal

اندر کا کمال - تحریر نمبر 2423

یہ شخص اندر سے باکمال ہے جبکہ میں اندر سے خالی ہوں

منگل 27 دسمبر 2022

محمد فہیم عالم
”او احمق!تو اُٹھتا کیوں نہیں․․․․“اس کرخت اور غصے سے بھری آواز کے ساتھ ہی اس کی پسلیوں میں ایک زور دار ٹھوکر لگی․․․․وہ درد سے بلبلا کر اُٹھ بیٹھا۔اس نے آنکھیں ملتے ہوئے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھا۔بادشاہ سلامت اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت اس کے سامنے موجود تھے۔وہ ساری بات سمجھ گیا۔وہ دراصل ایک حکیم تھا۔

رات دن جنگلوں اور پہاڑوں میں جڑی بوٹیوں کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا۔آج بھی وہ صبح ہی سے ایک قیمتی جڑی بوٹی کی تلاش میں نکلا ہوا تھا۔وہ شام تک جنگل میں جڑی بوٹی کی تلاش میں نکلا ہوا تھا۔وہ شام تک جنگل میں جڑی بوٹی تلاش کرتا رہا۔لیکن وہ بوٹی اسے نہ ملی۔شام کو تھک ہار کر اس نے واپس گھر کی طرف رخ کیا۔

(جاری ہے)

مارے تھکاوٹ کے اس کا برا حال ہو چکا تھا۔

اسے اپنے پاؤں من من بھاری محسوس ہو رہے تھے۔رات بھر وہ ایک دوائی بناتا رہا تھا۔ایک لمحہ کے لئے بھی سو نہیں سکا تھا۔اس لئے نیند بھی بے حد آ رہی تھی۔وہ چند قدم ہی چلا تھا کہ اسے سخت نیند نے آ لیا۔اس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔سڑک کے ایک کنارے پر ایک بڑا سا پتھر پڑا ہوا تھا۔وہ پتھر پر ذرا سستانے کے لئے بیٹھ گیا۔یونہی بیٹھے بیٹھے اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اسے نیند کی دیوی نے اپنی آغوش میں لے لیا۔
اب بادشاہ سلامت کی وہ سخت آواز اور ٹھوکر کھا کر بیدار ہوا تھا۔
بات واضح تھی۔سڑک سے بادشاہ سلامت کی شاہی سواری اپنے پورے زور و شور کے ساتھ گزر رہی تھی۔لیکن وہ بے چارہ تو گہری نیند سویا ہوا تھا۔اسے بھلا ”ہٹو بچو!“کی آواز کہاں سنائی دیتی۔سپاہیوں نے بھی اسے جگانے کی کوشش کی․․․․لیکن جب ان کے اٹھانے سے بھی وہ نہیں اٹھا تو بادشاہ سلامت کو خود اپنی سواری سے اُتر کر آنا پڑا۔

”احمق!تو ہمیں جانتا نہیں ہم کون ہیں۔ہماری شاہی سواری گزر رہی ہے اور تو ٹانگیں پسارے سڑک پر پڑا ہے۔بے ادب گستاخ!“․․․․․بادشاہ سلامت کا چہرہ مارے غصے کے سرخ ہو رہا تھا۔
”جی ہاں!میں اسی بات پر غور کر رہا ہوں کہ آپ کون ہیں۔اب تک میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شاید آپ جنگل کے درندے ہیں اس لئے کہ عام طور پر درندوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ زمین پر پاؤں مارتے ہوئے اور دھول اُڑاتے ہوئے چلا کرتے ہیں۔
جب آپ نے ٹھوکر ماری تو میں ڈر گیا کہ ضرور جنگل کا کوئی درندہ آ گیا ہے۔“حکیم پُرسکون لہجے میں بولا۔
”کیا․․․․․!!“اس کی یہ بات سن کر بادشاہ چلا اُٹھا۔
”گستاخ!احمق․․․․․!آدمی کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم وقت کے بادشاہ ہیں۔شاہی تخت ہمارے قبضے میں ہے۔عصائے شاہی ہمارے ہاتھوں میں ہے۔چالیس قلعے ہماری دسترس میں ہیں۔
شاہی خزانوں کے مالک ہیں،ہمارے ایک اشارے پر تمہاری موت و حیات کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔“بادشاہ سلامت کا غصہ آسمانوں سے باتیں کر رہا تھا۔
”احمق میں نہیں تم ہو!اے بے وقوف بادشاہ!“حکیم صاحب پر بادشاہ سلامت کے غصے کا بالکل بھی اثر نہیں ہوا تھا۔
”تو نے جتنی چیزیں بھی اپنی بڑائی اور عظمت کے لئے گنوائی ہیں۔یہ سب چیزیں تو تجھ سے باہر ہیں۔
تو یہ بتا تیرے اندر کون سا کمال ہے۔وہ سب تو باہر باہر کی چیزیں ہیں۔تاج اگر اچھا ہے تو اپنی ذات کی وجہ سے اچھا ہے کہ اس میں بیش قیمت ہیرے جواہرات جڑے ہیں۔اس میں بھلا تیرا کیا کمال ہے۔اگر تیری پوشاک اچھی ہے عمدہ ہے تو وہ اپنے خوبصورت کپڑے کی وجہ سے خوبصورت ہے۔تیری اپنی ذات کی اس میں کیا خوبی ہے۔اگر یہ سب کچھ تجھ سے جدا ہو جائے تو تُو ذلیل ہو جائے گا۔
تیری عزت ختم ہو جائے گی۔یہ بھلا کیا عزت ہوئی کہ اندر کوئی کمال نہیں جب کہ بیرونی اشیاء پہ بھروسہ کرکے اپنی بڑائی اور عزت کو بیان کر رہا ہے۔اگر تو کمال اور بڑھائی جتلاتا ہے تو اپنے اندر کمال پیدا کر․․․․“حکیم صاحب بولتے چلے گئے جبکہ بادشاہ سلامت کا سر جھک چکا تھا۔وہ سوچ رہے تھے۔
”واقعی بات تو سچی ہے میرے اندر تو کوئی کمال نہیں۔یہ شخص اندر سے باکمال ہے جبکہ میں اندر سے خالی ہوں۔“
کیا آپ کو پتہ ہے یہ حکیم صاحب کون تھے ان کا نام سقراط تھا․․․جی ہاں!وہی مشہور معروف یونانی حکیم جس نے جڑی بوٹیوں کی خصوصیات پر بہت سی شہرہ آفاق کتابیں لکھیں۔

Browse More 100 Great Personalities