Bacha Bagal Mein Dhindora Shehar Mein - Article No. 2576

Bacha Bagal Mein Dhindora Shehar Mein

بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں - تحریر نمبر 2576

”ارے یہ تو یہاں رکھا ہے پاندان میں“ دادی جان نے پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔”میں نے تو میز پر رکھا تھا۔یہاں کیسے آ گیا؟“

منگل 5 ستمبر 2023

شائستہ زریں
گھر بھر میں ہلچل کا سماں تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔گھر کا ہر فرد پریشان اِدھر سے اُدھر دوڑتا بھاگتا نظر آ رہا تھا۔تمام گھر والے ایک ہی چیز تلاش کر رہے تھے یعنی دادی جان کا چشمہ۔جب سے دادی جان کو بھولنے کی بیماری ہوئی تھی آئے دن وہ اپنی کوئی نہ کوئی چیز کہیں نہ کہیں رکھ کر بھول جاتی تھیں اور شامت آ جاتی تھی گھر بھر کی۔
کیونکہ جب تک وہ چیز مل نہ جائے دادی جان نہ خود سکون سے رہتیں اور نہ ہی کسی اور کو چین سے بیٹھنے دیتیں۔اور چشمہ تو اُن کے لئے بہت حساس اور نازک معاملہ تھا کیونکہ اس ضعیفی کے عالم میں بھی دادی جان اپنے بچپن کے شوق اور مشغلے کتب بینی کے بنا نہیں رہ سکتیں۔نزدیک کی نظر کمزور ہونے کی وجہ سے دادی جان پڑھنے کے لئے چشمہ لگاتی تھیں۔

(جاری ہے)


صبح سویرے تلاوتِ کلام پاک اور اس کے بعد صبح ناشتے کے ساتھ تازہ اخبار پڑھنا دادی جان کا روزانہ کا معمول تھا۔

کل شب ہی تو اُنہوں نے اپنے چھوٹے سے کتب خانے سے نسیم حجازی کی کتاب ”خاک اور خون“ نکالی تھی جو آج اُن کو پڑھنی تھی۔آج صبح جب قرآنِ حکیم پڑھنے کے لئے دادی جان نے میز سے اپنا چشمہ اُٹھانا چاہا تو وہ اپنی جگہ موجود نہ تھا۔بس اُسی وقت سے چشمے کی تلاش جاری تھی۔گھر کے ہر کونے کی تلاشی لی جا رہی تھی۔مختلف افراد مختلف سمتوں میں چشمہ ڈھونڈ رہے تھے۔
حتیٰ کہ واشنگ مشین،فریج اور کپڑوں کی الماری تک میں چشمہ تلاش کر لیا گیا،امی نے تو باورچی خانے میں مصالحوں کی برنیوں تک میں چشمہ دیکھ لیا تھا۔پریشانی میں دادی جان کا بلڈ پریشر بڑھ گیا تھا جو اُن کی صحت کے لئے خطرہ تھا۔امی نے جلدی سے بلڈ پریشر کی دوا دے کر اُن کو آرام کرنے کو کہا لیکن تلاوتِ کلام پاک کے بغیر دادی جان کو بے چینی ہو رہی تھی جو سورتیں اُن کو زبانی یاد تھیں وہ پڑھ چکی تھیں اور پھر آج تو اُن کا قرآنِ پاک ختم ہونے والا تھا۔
دادی جان مہینے میں دو قرآنِ حکیم مکمل کرتی تھیں۔
رات میں نے سونے سے پہلے خود میز پر رکھا تھا پھر کہاں چلا گیا؟صبح سے کئی بار دادی جان یہ بات دہرا چکی تھی۔دادی جان کا چشمہ نہ ملنا تھا نہ ملا۔بالآخر گھر والے تھک ہار کر بیٹھ گئے کیونکہ سب مایوس ہو چکے تھے لیکن دادی جان کو کسی پل قرار نہیں آ رہا تھا وہ بے چینی سے ٹہل رہی تھیں۔اُن کو یوں بے سکون دیکھ کر سب لوگ دوبارہ دادی جان کا چشمہ تلاش کرنے لگے۔
دادی جان نے اعلان کر دیا کہ ”اگر چشمہ نہ ملا تو وہ آج ہی آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس جا کر آنکھیں ٹیسٹ کروا کر اپنا چشمہ بننے کو دیں گی“ ابا میاں نے تسلی دی کہ ان شاء اللہ بہت دیر سے گھبراہٹ میں چہل قدمی کرتی دادی جان بہت اُداس اور پریشان اپنے تخت پر آ کر بیٹھ گئیں۔دادی جان کی عادت تھی پان کی گلوری منہ میں ڈال کر مطالعہ شروع کرتیں۔
صبح سے دادی جان کو پریشانی میں پان کھانے کا خیال تک نہ آیا تھا۔چاشت کی نماز پڑھ کر اُنہوں نے پان کھانے کی نیت سے پاندان کھولا تو سامنے ہی پاندان کی ٹرے میں دادی جان کا چشمہ رکھا ہوا تھا۔”ارے یہ تو یہاں رکھا ہے پاندان میں“ دادی جان نے پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔”میں نے تو میز پر رکھا تھا۔یہاں کیسے آ گیا؟“
پل بھر میں گھر بھر میں خبر پھیل گئی کہ دادی جان کا چشمہ اُن کے پاندان میں رکھا ہوا مل گیا۔
ابا میاں ہنس دیے ”یہ تو وہی بات ہو گئی“ ”بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں“ یہ سن کر گڈو میاں نے بے ساختہ کہا لیکن یہاں تو کہاوت ہی بدل گئی ”چشمہ پاندان میں تلاشی گھر بھر میں“ دادی جان جو چشمہ ملنے کے بعد پُرسکون ہو گئی تھیں ہنستے ہوئے کہنے لگیں ”واہ گڈو میاں بہت خوب“ دادی جان کو خوش دیکھ کر سارے گھر والے بھی بہت خوش تھے۔

Browse More Funny Stories