
Mirza Sahab - Article No. 1841
مرزا صاحب
رزق کو کھانے کے انتظار میں پڑا نہیں رہنا چاہیے۔حالانکہ خود گھر میں مہمان آجانے کی صورت میں اس کے چلے جانے تک کھانا موٴخر کر دیتے ہیں․․․․
جمعرات 26 نومبر 2020

”اسے آپ ہماری بد قسمتی کہہ لیں یا’مرزا صاحب‘جوکہ’بسیار خوری‘کی صفت میں لاثانی ہیں،کی خوش قسمتی کہ ہم ان کے پڑوسی ہیں۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ ہمارے پڑوسی ہیں۔کیونکہ ان کے ہر انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں پڑوسی کے متعلق جتنے بھی حقوق ہیں سب ان کو ہی جاتے ہیں۔ہمارا ان پر کوئی استحقاق نہیں۔مجال ہے جو کبھی ان کے گھر سجے’سہہ وقتی‘پکوان میں سے کچھ حصہ بطور’تبرک‘ہی ہمارے گھر بھیجا گیا ہو۔حلیے کے اعتبار سے کافی کنجوس واقع ہوئے ہیں۔داڑھی کے بال تو سرے سے ناپید ہیں۔سر کے بال رکھنے کا تکلف بھی کبھی نہیں کیا۔
بقول ان کے ․․․․’میاں!بالوں کے لئے تیل وغیرہ کا خرچہ کون برداشت کرے؟ہم گنجے ہی بھلے۔
(جاری ہے)
“
صابن اور کنگھا وغیرہ کے اخراجات سے اس طور بچ جاتے ہیں کہ گنج پر صرف’ٹاکی‘پھیرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔اس کام میں جو ’قوت بازو‘صرف ہوتی ہے،اس کا اظہار چمکدار گنج پر کسی’رن وے‘ پر بھاگتے جہاز کی طرح اپنے ہاتھ کی پھسلن سے کرتے ہوئے لوگوں سے داد وصول کرتے ہیں۔
بقول ان کے ․․․․’رزق کو کھانے کے انتظار میں پڑا نہیں رہنا چاہیے۔“حالانکہ خود گھر میں مہمان آجانے کی صورت میں اس کے چلے جانے تک کھانا موٴخر کر دیتے ہیں۔اکثر ان کو محلے داروں کا دروازہ کھٹکھٹا کر علی الاعلان روٹی کے ساتھ کھانے کے لئے ایک عدد پیاز مانگتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔تاکہ سننے والے باخبر ہو جائیں کہ ان کے گھر میں فی الحال کچھ نہیں ہے۔لہٰذا کوئی ان کے گھر مہمان ہونے کی زحمت نہ کرے۔
کھانا کھاتے ہوئے ان کی پھنکار نما آوازیں سن کر ہم انہیں بیل گائے کی قبیل کا کوئی فرد نہیں کہہ سکتے‘حالانکہ نتھنے کافی پھیلاؤ میں رکھتے ہیں۔ان کو کھانے پر بلائے جانے کے علاوہ کسی موقع پر مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔کھانے کی دعوت دینے والا خوش نصیب ان کی بانچھوں سے لے کر کانوں تک کی مسکراہٹ سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔
”آمدم برسر مطلب‘صرف ایک ہی زحمت دیتے ہیں۔
”اخاہ!میاں آج کیا پکا ڈالا؟لانا ذرا․․․․بڑی عمدہ خوشبو اٹھ رہی ہے۔“
اب ہم خوشبو کو اٹھنے سے باز رکھتے سے تو رہے۔ سو پکا پکایا ان کے سامنے رکھنا پڑتا ہے۔تب ان کے سوکھے سے منہ کی عمارت کا دروازہ کھلتے ہوئے دیکھنا دن بھر کا انوکھا تجربہ ہوتا ہے،جہاں سے جابجاابھری ہوئی لال رنگ کی بتیس عدد اینٹیں صاف نظر آتی ہیں۔جواب میں ہماری مسکراہٹ دیکھنے والی ہوتی ہے۔
”بندے کو مسکراتے رہنا چاہیے۔“
یہ ان کا آخری کلا م ہوتاہے۔
پھر پھنکاریں․․․․․
مزید مزاحیہ کہانیاں

کار بے کار
Car Bekar

سیدھے کا اُلٹا
Seedhe Ka Ulta
ایک گھنٹے کی بادشاہت
Aik Ghentay Ki Badshahat

بھوت کا راز
Bhoot Ka Raaz

پرانا حربہ
Purana Harba

دل چسپ سفر
Dil Chasp Safar

اُڑنے والا ہاتھی
Urne Wala Hathi

ایک کے سو
Aik K So

الہٰ دین کے جن کا زوال
Aladdin Ke Jin Ka Zawal

اس دور کے بندر سیانے
Iss Dorr K Bandar Siyane

شیخ چلی کے خیالی پلاؤ
Sheikh Chilli Ke Khayali Pulao
شیخ موسی کا ٹٹو
Sheikh Musa Ka Tattu
Your Thoughts and Comments
مزید مضامین
-
گلہری اور درخت
Gulehri or darakhat
-
محنت کریں کامیابی پائیں
mehnat karen kamyabi payen
-
23مارچ 1940
23 March 1940
-
بوڑھے آدمی نے محنت کا پھل کیسے پایا
Borhe Admi Ne Mehnat Ka Phaal Kaise Paya
-
تیرھویں کرسی
Tairhvin Kursi
-
افلاطون
Aflatoon
-
عمرو عیار کی جدید زنبیل
Umro Ayyar Ki Jadeed Zanbeel
-
عید مشن
EIDI Mission
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2022, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.