100 Bori Gandum - Article No. 2824

100 Bori Gandum

سو بوری گندم - تحریر نمبر 2824

ہر گھر میں گندم کی ایک ایک بوری پہنچا دو، بے چارے کچھ تو کھا سکیں گے

بدھ 17 ستمبر 2025

نذیر انبالوی
یہ وارث نگر گاؤں کی کہانی ہے۔اس گاؤں کو وارث نامی ایک آدمی نے آباد کیا تھا۔یہ گاؤں دریا کے کنارے آباد تھا۔جب دریا کے کناروں پر بند نہیں بنائے گئے تھے تو گاؤں کے باسی برسات آتے ہی گاؤں سے ہجرت کر کے اپنے عزیز رشتے داروں کے ہاں چلے جاتے تھے۔ساٹھ سال قبل وارث علی نے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تو اس نے سب سے پہلے جو کام کیا، وہ دریا کے کناروں پر بند کی تعمیر تھی۔
جب بارشیں شدید ہوتیں اور دریا میں پانی کا بہاؤ بہت زیادہ ہو جاتا تو اس دباؤ سے بند ٹوٹ جاتا، جس کے نتیجے میں پانی گاؤں اور کھیتوں میں داخل ہو کر بہت نقصان پہنچاتا اور سیلاب آنے کا خطرہ ہر سال ہی ہوتا تھا۔اس گاؤں میں ماسٹر حیدر کا بیٹا وکیل بن کر گاؤں میں آیا تو اس نے سیاست میں قدم رکھ دیا۔

(جاری ہے)

اب گاؤں کے لوگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔

جب وارث کو ماسٹر حیدر کے بیٹے نعمان کے سیاست میں حصہ لینے کا علم ہوا تو اس نے نعمان کو اپنی حویلی میں چائے پینے کی دعوت دی۔
نعمان اور اس کے والد چوہدری وارث کی حویلی میں بیٹھے تھے۔چودھری صاحب نے ہنس کر کہا:”سنا ہے تم سیاست میں آ گئے ہو۔“
”جی․․․․ جی ہاں چوہدری صاحب! نعمان نے نہایت ادب سے جواب دیا۔پھر تمھیں مجھ سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔
“ وارث نے کہا۔
”میں اپنی سیاست کروں گا اور آپ کی طرح لوگوں کی خدمت کروں گا، اس لئے چوہدری صاحب! میں نے سیاست میں آنے کا اعلان کر دیا ہے․․․․“ نعمان نے اتنا کہا تو ماسٹر حیدر نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”خاموش ہو جاؤ نعمان!“
چوہدری وارث نے کہا:”نہیں نہیں، کہنے دو۔مجھے اس کی باتیں اچھی لگی ہیں۔“
کچھ دیر گفتگو کے بعد ماسٹرحیدر اپنے بیٹے کو گھر لے آئے اور پوچھا:”الیکشن لڑنے کے لئے تمہارے پاس پیسہ کہاں سے آئے گا؟“
”ایک پارٹی مجھے ٹکٹ دے رہی ہے، وہی الیکشن کے اخراجات کرے گی، آپ پیسوں کی فکر نہ کریں۔
“ نعمان نے نہایت تحمل سے جواب دیا۔گاؤں میں الیکشن ہوا اور نعمان پچاس ووٹ کم پڑنے کے باعث الیکشن ہار گیا۔چوہدری وارث نے نعمان کو گلے لگایا اور کہا:”ہم مل کر گاؤں کی ترقی کے لئے کام کریں گے۔“
اس سال برسات کے موسم میں شدید بارشیں ہوئیں۔دریا کا بند ٹوٹا تو سیلابی پانی گاؤں کے ارد گرد جمع ہو گیا۔خیال یہی تھا کہ بند بہت مضبوط ہے، سیلاب کا کوئی خطرہ نہیں ہے، جب بارشیں زیادہ ہوئیں تو بائیں طرف سے بند ٹوٹنا شروع ہوا۔
گاؤں والے پہرہ دینے لگے۔سارا گاؤں پانی کی زد میں آ گیا۔گاؤں کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔نہ کوئی آ سکتا تھا نہ جا سکتا تھا۔کئی روز ہو گئے بارشیں وقفے وقفے سے ہوتی رہیں۔چونکہ فصلیں تباہ ہو گئی تھیں اور محفوظ کیا ہوا غلہ بھی ختم ہو چکا تھا۔لوگ بھوک سے بے حال ہونے لگے۔چوہدری وارث نے اپنے خاندانی ملازم رحمت علی سے کہا:”رحمت علی! اس مرتبہ گاؤں والوں کا بہت نقصان ہوا ہے۔

”جی چوہدری صاحب! میں نے بھی ایسی بارشیں پہلے کبھی نہیں دیکھیں۔گاؤں کے چاروں طرف ہر چیز پانی کی لپیٹ میں آ گئی ہے۔شکر ہے کہ گاؤں ذرا اونچائی پر ہے۔چاول کی فصل تو بالکل تباہ و برباد ہو گئی ہے۔گاؤں کے لوگ تو پہلے ہی بہت غریب ہیں، اب یہ اتنے عرصے تک کیا کھائیں گے۔“ رحمت علی نے جواب دیا۔
”بات تو تمہاری ٹھیک ہے رحمت علی، غریبوں کا کیا بنے گا۔
“ چوہدری وارث کے لہجے میں دکھ کی جھلک تھی۔
گاؤں کے ارد گرد سیلابی پانی تو کسی حد تک اُتر گیا تھا، لیکن گندم، چاول اور مکئی کی فصلیں پانی سے خراب ہو گئی تھیں۔کسی کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ان لوگوں کی پریشانی سے چوہدری وارث بھی بہت پریشان تھا۔اس نے رحمت علی سے پوچھا:”گودام میں گندم کی کتنی بوریاں ہیں؟“
”میرے اندازے کے مطابق گودام میں 100 بوریاں گندم کی ہیں۔
“ رحمت نے بتایا۔
”اور گاؤں میں گھروں کی تعداد کتنی ہے؟ چوہدری وارث نے پوچھا۔“
گاؤں میں گھروں کی تعداد بھی تقریباً سو ہی ہے۔رحمت علی نے جھٹ جواب دیا۔”پھر تو بات بن گئی ہے۔“ چوہدری وارث کے چہرے پر اطمینان تھا۔
رحمت علی نے پوچھا:”چوہدری صاحب! وہ کیسے؟“
”ہر گھر میں گندم کی ایک ایک بوری پہنچا دو، بے چارے کچھ تو کھا سکیں گے۔
“ چوہدری وارث نے رحمت علی کی طرف دیکھ کر کہا۔
”کیا سب کو ایک ایک گندم کی بوری دے دوں، کیا اپنے مخالفین کو بھی گندم کی بوری دے دوں۔“ رحمت علی کو جیسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔
”ہاں! سب کے گھروں میں گندم کی ایک ایک بوری دے دو، یہ سیانے پن کا نہیں، ہمدردی کا وقت ہے۔سب مشکل میں ہیں، اس مشکل میں ہمیں سب کی مد کرنا چاہیے۔چوہدری وارث کے حکم پر رحمت علی اور اس کے ساتھی گندم کی بوریوں کی تقسیم کے اہم کام پر لگ گئے۔

چوہدری وارث کے اس اچھے عمل سے گاؤں والے بہت خوش ہوئے اور چوہدری صاحب کا شکریہ ادا کیا۔نعمان نے اس موقع پر گاؤں کے لوگوں سے کہا کہ ہم گندم کی یہ بوریاں چوہدری وارث کو واپس کریں گے۔وہ ہمارے بُرے وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں، جب حالات معمول پر آ جائیں گے تو ہم اپنے کھیتوں میں محنت کر کے گندم اُگائیں گے اور چوہدری وارث کو ایک ایک بوری گندم واپس کریں گے۔
سب لوگوں نے اس بات کی تائید کی۔پھر جب گندم کی فصل تیار ہوئی تو سب نے ایک ایک بوری گندم کی چوہدری وارث کو واپس کرنے کی کوشش کی تو اس نے سب کو حویلی میں اکٹھا کر کے کہا:”میں نے تم لوگوں کو گندم کی بوری اس لئے نہیں دی تھی کہ اسے واپس لوں، وہ مشکل کی گھڑی تھی، اُس وقت میرے گودام میں سو بوری گندم کی موجود تھیں۔اب اس سال فصل اتنی اچھی ہوئی ہے کہ ان سو بوری گندم کی جگہ دو سو بوریاں گودام میں موجود ہیں۔اپنی اپنی گندم کی بوری واپس لے جاؤ، میں تم سے گندم واپس نہیں لوں گا۔“ اس موقع پر گاؤں کے لوگوں نے چوہدری وارث کے حق میں نعرے بلند کیے۔

Browse More Moral Stories