Beqasoor - Article No. 2774

Beqasoor

بے قصور - تحریر نمبر 2774

ذرا تصور تو کرو کہ اگر تمہاری غلیل کا پتھر ابو عدنان یا کسی اور کو جا لگتا تو کتنا نقصان ہو سکتا تھا

بدھ 30 اپریل 2025

حسن رضا سردار وصفی
ہمارے ہمسائے چچا ابو عدنان اپنے گھر کے باغیچے میں کھڑے پودوں کی کانٹ چھانٹ کر رہے تھے۔اچانک مجھے خوبصورت سبز رنگ کے طوطے کی آواز سنائی دی۔میں نے جلدی سے اپنے بستے میں سے غلیل نکالی اور طوطے کا نشانہ لے کر غُلہ چلا دیا۔طوطا اُڑ گیا۔وہ چچا عدنان کے ناغیچے کی دیوار پر جا بیٹھا۔میں نے ایک اور پتھر غلیل میں رکھا اور طوطے کا نشانہ لے کر پھینک دیا۔
طوطا دور اُڑ دیا۔اسی وقت میں نے چچا عدنان کی چیخ سنی۔وہ کراہ رہے تھے:”آہ․․․․․آہ․․․․“
میں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔جب میں گھر پہنچا تو جلدی سے اپنے کمرے میں گھس گیا اور دروازہ بند کر لیا۔یقینا، پتھر چچا ابو عدنان کو جا لگا ہے اور یقینا انھوں نے مجھے دیکھ بھی لیا ہو گا۔

(جاری ہے)

اب وہ پولیس میں شکایت کریں گے اور پولیس مجھے پکڑ کر تھانے لے جائے گی۔


میرے گھر والے اس واقعے سے بے خبر تھے۔میں نے خود کو کمرے میں بند کر لیا اور ڈرتے ڈرتے سو گیا۔مجھے بڑے ڈراؤنے اور پریشان کن خواب نظر آتے رہے۔میں نے خواب میں دیکھا کہ پولیس ہمارے گھر آ گئی ہے اور اس نے مجھے گرفتار کر لیا ہے۔میں سہم کر نیند سے بیدار ہو گیا۔
اگلی صبح میں اسکول گیا تو گزشتہ دن کے واقعے کی وجہ سے خوف زدہ تھا۔میں نے اپنے دوست ہادی کو تمام قصہ کہہ سنایا۔
اس نے مجھے مشورہ دیا کہ میں تمام بات اپنے ماسٹر صاحب کو بتا دوں۔
جب میں نے سارا واقعہ ماسٹر صاحب کو بتایا تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور بولے:”فکر نہ کرو بیٹے! میں انشاء اللہ تمہارا مسئلہ حل کر دوں گا۔“
چھٹی کے بعد ماسٹر صاحب مجھے ساتھ لے کر چچا ابو عدنان کے گھر گئے۔میں بڑا ڈر رہا تھا۔ان کے گھر پہنچ کر ماسٹر صاحب نے دروازے پر دستک دی۔
چچا ابو عدنان باہر نکل آئے۔وہ زخمی نہیں تھے۔انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا:”تشریف لائیے! خوش آمدید۔“
میرے ساتھ جو کچھ پیش آیا تھا، ماسٹر صاحب نے تفصیل سے بیان کیا۔
چچا ابو عدنان قہقہہ لگا کر ہنسے پھر بولے:”بس یہی بات تھی؟ تمہارے خیال میں پتھر میرے سر میں لگا تھا؟“
میں نے جلدی سے کہا:”میں نے تو آپ کی چیخ سنی تھی۔

وہ بولے:”میں قینچی سے پودوں کی کانٹ چھانٹ کر رہا تھا۔میری اُنگلی قینچی سے زخمی ہو گئی تھی۔اس معاملے میں تم بے قصور ہو۔“پھر انھوں نے اپنی زخمی اُنگلی دکھائی۔
چچا ابو عدنان اپنی جگہ پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، پھر کہنے لگے:”عبداللہ! تم ایک مہذب لڑکے ہو۔تم اپنی غلطی کی معافی مانگنے آئے ہو، جو تمہارے خیال میں تم سے سرزد ہوئی تھی۔
اس کے باوجود تم قصوروار ہو۔“
میں نے فوراً کہا:”لیکن پتھر تو آپ کو لگا ہی نہیں تھا چچا! تو پھر میں قصوروار کیسے ہوں؟“
چچا ابو عدنان نے نرمی سے کہا:”میرے پیارے بیٹے! خوبصورت پرندے باغوں کا حسن ہیں۔وہ اپنی سریلی آوازوں سے ہمارے کانوں میں رس گھولتے ہیں اور اپنے دلکش رنگوں سے ہمارے مزاج کو خوشگوار کر دیتے ہیں۔تم اپنی غلیل سے انھیں کیوں مارنا چاہتے ہو؟“
پھر ماسٹر صاحب نے کہا:”عباد! ذرا تصور تو کرو کہ اگر تمہاری غلیل کا پتھر ابو عدنان یا کسی اور کو جا لگتا تو کتنا نقصان ہو سکتا تھا؟“
میں خاموش ہو گیا اور اپنی غلطی تسلیم کر لی تھی۔میں نے وعدہ کیا کہ آئندہ میں اس طرح کا کام ہر گز نہیں کروں گا۔

Browse More Moral Stories