Rikshey Wala Saith - Article No. 1790

Rikshey Wala Saith

رکشے والا سیٹھ - تحریر نمبر 1790

کاش ہمارے ملک میں سارے سیٹھ آپ جیسے ہو جائیں

ہفتہ 29 اگست 2020

م۔ندیم علیگ
کریم بھائی کا ہینڈ بیگ کھو گیا تھا۔وہ بینک سے روپیہ نکال کر اپنی کار میں بیٹھے اور راستے میں دو تین جگہوں پر دوستوں سے ملاقات کرنے کو رکے۔فون کرکے انہوں نے دریافت بھی کر لیا،مگر ان کے بیگ کا پتا نہیں چل سکا۔اس بیگ میں اسی ہزار روپے تھے،مگر ان کو روپوں کی اتنی فکر نہیں تھی جتنی ان اہم کاغذات کی تھی جو اسی بیگ میں تھے۔
دراصل اس میں ایک بڑی تجارتی کمپنی سے مال ایکسپورٹ کرنے کا معاہدہ اور آرڈر تھا اور کچھ کاغذات حساب کتاب سے متعلق تھے۔اگر یہ کاغذات اور روپے کسی ملازم سے کھو جاتے تو یقینا اس پر چوری یا غبن کا الزام لگا کر اس کو پولیس کے حوالے کر دیتے،مگر یہ غلطی تو ان سے ہی ہوئی تھی،اس لئے وہ کسی پر غصہ بھی نہیں اُتار سکتے تھے۔

(جاری ہے)

بھلا جس کو اتنی بڑی رقم ملے گی وہ کیوں واپس کرے گا!وہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئے جا رہے تھے اور ساتھ میں ہونے والے نقصان کا حساب لگا رہے تھے۔

وہ دن اور تمام رات بہت بے چینی سے گزرا۔
ان کا ارادہ تھا کہ وہ اخبار میں اشتہار دے دیں کہ جو بھی اس بیگ کو تلاش کرکے ان تک پہنچائے گا اس کو بیس ہزار روپے انعام دیں گے۔ دوسرے دن کچھ لوگ ان سے ملنے آنے والے تھے ان سے بھی ملاقات نہیں کی اور نوکر سے کہلوا دیا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔
نوکر ڈرتے ڈرتے بولا:”حضرت!ایک آدمی آپ سے ملنا چاہتا ہے۔

”میں نے تم سے کہہ دیا کہ میں بہت پریشان ہوں۔میں کسی سے نہیں ملوں گا۔“وہ غصے سے بولے۔
”مگر وہ کہتا ہے کہ آپ سے بہت ضروری کام ہے۔آپ کی امانت واپس کرنا ہے۔“
”امانت کیسی امانت“انہوں نے سوچا اور پھر بولے:”بلاؤ!شاید وہ میرے بیگ کا کچھ بتا سکے۔دیکھو چلا نہ جائے۔“
تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان ان کے سامنے کھڑا تھا۔
اس نے پوچھا:”کیا آپ کا نام کریم بھائی ہے۔“
”ہاں ہاں میرا نام کریم ہے۔“
”کیا آپ کی کوئی چیز کھوئی ہے؟“
”میرا روپوں کا بیگ ہے اس میں اسی ہزار روپے اور کاغذات ہیں۔“کریم بھائی نے کھڑے کھڑے ہی جواب دیا۔
پھر خیال آیا کہ بد حواسی میں اس نوجوان سے بیٹھنے کو بھی نہیں کہا تو بولے:”میاں صاحب زادے!بیٹھو بیٹھو۔

اس نوجوان نے کپڑے سے لپٹا ہوا بیگ نکالا اور ان کو تھماتے ہوئے کہا:”جناب!اس میں آپ کی ساری امانت ہے،آپ رقم گن لیں۔یہ مجھے ایک کار کے قریب پڑا ملا تھا۔میں نے سوچا،یقینا کار سے اُترتے ہوئے گر گیا ہو گا۔اس سے پہلے کہ کوئی چور اُٹھا کر لے جائے،اسے اس کے مالک تک پہنچا دینا چاہیے۔میں اِدھر اُدھر پتا کرنے لگا۔واپس آیا تو وہ کار جا چکی تھی۔
مجبوراً پتا معلوم کرنے کے لئے مجھے بیگ کھولنا پڑا۔“
کریم بھائی نے بیگ کھولا اور اس میں سے کاغذات کو نکال کر ان کو چوما،کیوں کہ وہی سب سے زیادہ قیمتی تھے۔پھر دس ہزار کی ایک گڈی نکال کر اس نوجوان کی طرف بڑھا دی اور بولے:”صاحب زادے!تم نے مجھے بہت بڑی پریشانی اور نقصان سے بچا لیا۔اللہ تم کو خوش رکھے۔یہ انعام نہیں،بلکہ نذرانہ ہے۔

نوجوان نے سادگی سے کہا:”جناب والا!ایمان داری کا اپنا انعام آپ ہے۔میں نے یہ کام کسی انعام کے لالچ میں نہیں کیا۔اگر آپ کا پتا نہیں ملتا تو میں اسے پولیس کے حوالے کر دیتا۔“کریم بھائی نے بہت اصرار کیا،مگر نوجوان نے انعام کی رقم لینے سے انکار کر دیا۔ کریم بھائی اس کی ایمان داری اور سادگی سے بہت متاثر ہوئے اور اس سے اس کے خاندان کے بارے میں گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ نوجوان کا نام ناصر حسین ہے اور کسی پرائیوٹ کمپنی میں کلرک ہے گھر میں بوڑھے ماں اور باپ ہیں۔
اور پھر ناصر حسین نے ایک ایسا واقعہ سنایا کہ جس کو سن کر کریم بھائی کے دل و دماغ میں بے چینی پیدا ہو گئی۔
”دراصل میرے والد کے ساتھ اسی قسم کا حادثہ پیش آچکا ہے۔میری عمر اس وقت آٹھ دس سال کی تھی میرے والد اپنی پینشن اور فنڈ کا چیک کیش کرا کر ایک آٹو رکشہ میں آرہے تھے۔راستے میں میرا سکول تھا۔وہ مجھے سکول سے لے کر خوش خوش گھر واپس آرہے تھے۔
میں کلاس میں فرسٹ آیا تھا۔ان کو اپنا رزلٹ کارڈ دکھلا رہا تھا۔اس خوشی میں انہوں نے آٹو رکشہ رکوا کر ایک دوکان سے مٹھائی خریدی اورکچھ دوسرا سامان بھی خریدا تھا۔بد قسمتی سے روپوں کا تھیلا آٹو رکشے میں رہ گیا جس میں بیس ہزار روپے تھے۔میری بہن کی شادی ہونے والی تھی اور ابا نے یہ روپے اس کی شادی کے لئے نکالے تھے۔آٹو رکشہ والے کو ہم نے بہت تلاش کیا اور پولیس میں رپورٹ بھی لکھوادی،لیکن اتنے بڑے شہر میں کسی شخص کا ملنا نا ممکن تھا جس کو ہم جانتے بھی نہ ہوں۔

میری اماں اور ابا کو بہت صدمہ ہوا ان کی تمام عمر کی کمائی یہی رقم تھی اور پھر میری بہن کی شادی ہونے کو تھی،مگر میرے ابا بہت صابر انسان ہیں۔انہوں نے اس آٹو رکشے والے کو نہ بد دعا دی اور نہ کوسا،بلکہ جب بھی اماں کچھ اس کے بارے میں بُرا بھلا کہنے لگتیں تو ابا منع کر دیتے اور کہتے:”صبر کرو منے کی اماں!شاید اللہ کی کوئی بہتری اس میں پوشیدہ ہو۔
شاید اس آدمی کو ان روپوں کی ہم سے زیادہ ضرورت ہو۔اللہ رازق ہے ہمیں کہیں اور سے دے دے گا۔شاید وہ رقم ہماری قسمت میں نہیں تھے۔میرے ابا نے اپنے آبائی مکان کو فروخت کر دیا اور میری بہن کی شادی میں ان روپوں کو خرچ کیا اور ہم لوگ ایک کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔میں نے کسی طرح سے ہائی سکول پاس کیا اور ایک کمپنی میں نوکری کرلی۔مجھے یہ بیگ پاکر احساس ہوا کہ اس کے مالک کو اس کے کھو جانے سے نہ جانے کتنا بڑا نقصان پہنچے اس لئے جلد سے جلد یہ امانت اس کے سپرد کر دینی چاہیے۔
بس میری یہ خواہش ہے کہ میں اس قابل ہو جاؤں کہ اپنا پرانا مکان پھر حاصل کرلوں۔“
”ناصر میاں!تمہاری کہانی بہت دکھ بھری ہے۔اس سے مجھے بہت بڑا سبق حاصل ہوا۔مجھے یقین ہے کہ ایک دن تم اپنا مکان ضرور حاصل کرلو گے۔میری کمپنی میں ایک اکاؤنٹ کے آدمی کی ضرورت ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ تم اس کے لئے موزوں شخص ہو۔کیا تم میری کمپنی میں کام کرنا پسند کرو گے۔
ہاں یہ تم پر کوئی احسان نہیں کررہا ہوں،بلکہ تمہاری ایمان داری ہماری کمپنی کے لئے انعام ہو گی۔“
”مجھے آپ کی کمپنی میں،آپ کی نگرانی میں کام کرکے بہت خوشی ہو گی جناب!مگر میں اپنے ابا جی سے بھی رائے لے لوں۔“ناصر نے جواب دیا۔”ہاں میں تمہارے ابا سے جلد ہی ملوں گا۔مجھے یقین ہے کہ ان کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا کہ تم میری کمپنی میں کام کرو اور اگر اعتراض ہو گا تو میں ان کو منالوں گا۔
“کریم بھائی نے ناصر کی پیٹھ تھپ تھپائی۔اب ناصر حسین کریم بھائی کی کریم آٹو کمپنی میں اکاؤنٹینٹ تھا اور ساٹھ ہزار روپے ماہانہ پاتا تھا اور کمپنی کی گاڑی اس کو گھر لے جاتی تھی اور گھر چھوڑنے آتی تھی۔اس واقعے کو ایک سال بیت چکا ہے۔ناصر حسین کے گھر کا نقشہ بدل چکا ہے۔اب اس کے پاس اتنی رقم ہے کہ وہ اپنا پرانا مکان خرید سکتا ہے۔وہ اپنے ابا کو لے کر اپنے پرانے مکان کو دیکھنے جاتا ہے تو ان کو بہت مایوسی ہوتی ہے۔
اس مکان کی تو صورت ہی بدل چکی تھی۔اب وہاں دو منزلہ خوب صورت عمارت کھڑی تھی جس کی قیمت کئی لاکھ ہو گی اور ابھی اس کی آرائش کا کام چل رہا تھا۔دریافت کرنے پر پتا چلا کہ کسی امیر آدمی نے اس کو ایک سال قبل خرید لیا تھا اور سال بھر سے یہاں تعمیر جاری تھی۔
ناصر حسین نے ٹھنڈی سانس لی اور ابا سے بولا:”ابا میاں!شاید اب ہم اپنا مکان واپس نہ لے سکیں گے۔

باپ نے بیٹے کے سر پر محبت سے ہاتھ رکھا اور کہا:”بیٹا!شاید اللہ کی کوئی مصلحت ہماری بہتری کے لئے،اس میں ہو گی۔اس کا شکر ادا کرو کہ ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔“
کریم بھائی ایک دن اچانک ناصر حسین کے گھر پہنچ گئے اور ناصر کے والد سے اپنا تعارف کرایا:”مجھے کریم بھائی کہتے ہیں۔ناصر میاں میری کمپنی میں کام کرتے ہیں۔بہت محنتی اور لائق نوجوان ہیں۔
“کریم بھائی نے کہا۔
”جناب والا! آپ کا کس زبان سے شکریہ ادا کروں۔آپ کا بہت بڑا احسان ہے کہ آپ نے ناصر کو اپنی کمپنی میں کام دیا اور اس پر اعتبار کیا۔ابھی تو وہ ناتجربے کار ہے۔“ناصر کے والد نے کہا۔”محترم!تجربے کے لئے عمر کی قید نہیں ہوتی۔کبھی کبھی نوجوان جلد وہ تجربے حاصل کر لیتے ہیں جو ہم بوڑھے لوگ بھی مدتوں نہیں کر پاتے۔
“کریم بھائی نے ہنس کر کہا۔”میں آپ کی کیا خدمت کروں۔آپ مجھے حکم دیتے تو میں آپ کے دولت خانے پر حاضر ہو جاتا۔میں غریب آدمی ہوں،آپ بہت بڑے انسان ہیں۔آپ کا یہ احسان ہے کہ مجھے یہ عزت بخشی۔“ناصر کے باپ نے کہا۔
”آپ مجھے شرمندہ نہ کریں،میں ایک گناہ گار انسان ہوں۔آپ کی خدمت میں حاضری میرے لئے ایک نئی زندگی کا باعث ہے۔“کریم بھائی نے ناصر کے والد کے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا۔
”ارے یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔اللہ نے آپ کو دولت ،عزت،راحت ہر چیز دی ہے۔آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے ۔آپ اللہ کے نیک بندے ہیں۔“
”بھائی صاحب!یہ واقعی اللہ کا رحم و کرم ہے کہ وہ اپنے گناہ گار بندوں کو بھی نعمتوں سے نوازتا ہے،مگر میں واقعی گناہ گار ہوں اور بہت دکھی انسان ہوں۔“کریم بھائی نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔”ناصر میاں نے بتایا تھا کہ اب سے تقریباً پندرہ سال پہلے کوئی آٹو رکشے والا آپ کے روپوں کا تھیلا لے کر بھاگ گیا تھا۔

”جی ہاں،مجھے وہ حادثہ کل جیسا لگتا ہے،مگر اب اس کے دہرانے سے کیا حاصل۔اللہ کرے کہ وہ رقم اس آٹو رکشے والے کے لئے آرام کا باعث ہوئی ہو۔“ناصر کے ابا نے جواب دیا۔”ہوا یہ کہ جب آٹو رکشے والا گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پیچھے کی سیٹ پر ایک تھیلا رکھا ہوا ہے۔اس نے تھیلا کھولا تو اس میں بیس ہزار روپے تھے۔اس نے سوچا کہ یہ روپے واپس کردوں اور اس کو شیطان نے بہکایا کہ یہ بے وقوفی مت کرنا یہ تو تمہاری قسمت کے ہیں رکھ لو۔
اس آٹو رکشے والے نے وہ رقم واپس نہیں کی اور آٹو رکشہ چلانا چھوڑ کر ورک شام قائم کرلی۔اس چوری کی رقم سے اس نے مشین خریدی۔کام چلا نکلا۔پھر ایک پرزوں کا کار خانہ قائم کیا۔سرکار سے قرضہ لے کر کام بڑھایا اور پندرہ سالوں میں وہ لکھ پتی بن گیا۔اب کاروں کے پرزے اس کے کا خانے میں بنتے ہیں اور بھی کئی کام کر لیے ہیں،مگر اس کا دل اس کو برابر ملامت کرتا ہے کہ اس نے بہت بڑا گناہ گیا ہے۔
وہ آپ کی رقم مع جرمانے کے واپس کرنا چاہتا ہے۔“
”مگر سیٹھ صاحب!آپ کو یہ سب کیسے معلوم ہوا؟“
”اجی مجھے کیسے معلوم ہوتا۔اسی آٹو رکشے والے نے مجھے یہ سب بتایا ہے۔“
”تو آپ اسے جانتے ہیں۔“
”خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔“
”تو کیا آپ مجھے اس سے ملوادیں گے؟“
”اجی وہ آپ کے پاس سرکے بل آئے گا،مگر بھائی جان! ایک شرط ہے کہ آپ اسے دل سے معاف کر دیں گے۔
وہ بہت شرمندہ ہے۔شیطان نے اسے بہکا دیا تھا۔وہ کہتا ہے کہ آپ کا مکان بھی آپ کو واپس کر دے گا۔“کریم بھائی نے اس آٹو رکشے والے کی وکالت کی۔
”مگر جناب!وہ مکان تو کسی سیٹھ نے خرید لیا ہے اور اس پر لاکھوں روپے خرچ کیے ہیں۔بھلا وہ مجھے کیوں ملے گا۔“
”معافی کی شرط یہی ہے کہ مکان آپ کو واپس ملنا چاہیے۔بولیے منظور ہے؟“
”جی․․․․مجھے منظور ہے۔
میرا مکان مجھے مل جائے گا۔“ناصر کے والد نے خوش ہو کر کہا۔
”تو آپ نے گویا اسے معاف کر دیا،سچے دل سے۔“
”ہاں جناب!مگر اسے لائیے تو،ملوائیے تو ،کہاں ہے ہو۔“
”جناب والا!وہ چور،وہ گناہ گار،وہ شیطان،نامعقول اور سزا کا مستحق انسان آپ کے سامنے کھڑا ہے۔جس کا نام سیٹھ کریم بھائی ہے۔“
”ارے یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سیٹھ صاحب!یہ نہیں ہو سکتا۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“ناصر کے والد کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔”’جی ہاں یہ سب سچ ہے۔میں ہی ہوں وہ گناہ گار انسان جس نے آپ کو بہت صدمہ دیا۔میں آپ کے گزرے ہوئے پندرہ سال واپس نہیں کر سکتا اور نہ ان مصیبتوں کا جرمانہ ادا کر سکتا ہوں،مگر آپ کا مکان آپ کو واپس کرتا ہوں۔جس کو میں نے ایک سال قبل ناصر میاں سے پہلی ملاقات کے بعد ہی خرید لیا تھا اور یہ طے کرلیا تھا کہ آپ کا مکان بہترین شکل میں آپ کو واپس کروں گا۔
مکان کے یہ کاغذات اب آپ کے ہوئے۔“
ناصر میاں کے ابا نے کریم بھائی کو سینے سے لگالیا۔آپ بہت بڑے دل کے انسان ہیں۔احساس گنا ہ اور اس سے توبہ کرنا بہت بڑی بات ہے،میں نے آپ کو معاف کیا۔اللہ تعالیٰ بھی آپ کو معاف فرمائے۔کاش ہمارے ملک میں سارے سیٹھ آپ جیسے ہو جائیں۔“
یہ سن کر کریم بھائی کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل پڑے۔ایک درخواست اور ہے اگر آپ قبول کرلیں تو مجھ پر بہت بڑا احسان ہو گا۔
میری ایک بیٹی ہے۔میں چاہتا ہو کہ ناصر میاں جیسے نیک اور محنت نوجوان سے اس کی شادی ہو۔کیا آپ اس کی اجازت دیں گے؟“کریم بھائی بولے۔
”ناصر آپ کا بیٹا ہے۔آپ بہ خوشی اس کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کر سکتے ہیں۔یہ ہماری خوش قسمتی ہو گی کہ ناصر آپ کی سر پرستی میں رہے۔“ناصر میاں کے والد نے آسمان کی جانب نظر اُٹھا کر کہا:”اے رب کریم تو جو بھی کرتا ہے ہماری بھلائی کے لئے کرتا ہے،تیرا شکر ہے۔“

Browse More Moral Stories