Shumaila Aur Chalak Bheriya - Article No. 2163

Shumaila Aur Chalak Bheriya

شمائلہ اور چالاک بھیڑیا - تحریر نمبر 2163

پیاری بچی تم اتنی صبح کہاں جا رہی ہو اور تمہاری اس ٹوکری میں کیا ہے

جمعرات 13 جنوری 2022

نوید اختر
کسی دور دراز ملک میں ایک ننھی منی لڑکی اپنی امی کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ان کا گھر جنگل کے قریب ہی ایک چھوٹے سے گاؤں میں تھا۔اس لڑکی کا نام شمائلہ تھا لیکن گاؤں کے تمام لوگ اس کو شمائلہ لال ٹوپی والی کہا کرتے تھے کیونکہ وہ ہر وقت لال رنگ کی ٹوپی پہنے رہتی تھی۔
ایک روز شمائلہ صبح سو کر اُٹھی تو اس کی امی نے کہا”بیٹی!تمہاری نانی اماں کچھ بیمار ہیں میں ایک ضروری کام کی وجہ سے آج انہیں ملنے نہیں جا سکتی۔
ایسا کرو تم جا کر اپنی نانی اماں کی خیریت دریافت کر آؤ اور اس ٹوکری میں میں نے ان کے لئے کچھ پھل رکھ دیئے ہیں یہ ان کو دے آؤ۔“شمائلہ جب پھلوں کی ٹوکری لے کر جانے لگی تو اس کی امی نے آواز دے کر کہا”دیکھو بیٹی راستے میں کسی اجنبی سے کوئی بات نہ کرنا اور سیدھی نانی اماں کے گھر جانا۔

(جاری ہے)

“شمائلہ نے کہا”جی اچھا․․․․امی“نانی اماں کا گھر پورا جنگل عبور کرنے کے بعد تقریباً آخری کنارے پر تھا۔


شمائلہ لال ٹوپی والی اُچھلتی کودتی اپنے آپ میں مگن جا رہی تھی کہ ایک بھیڑیے نے اس کا راستہ روک لیا اور پوچھا:”پیاری بچی تم اتنی صبح کہاں جا رہی ہو اور تمہاری اس ٹوکری میں کیا ہے“شمائلہ بولی”میری نانی اماں بیمار ہیں میں ان کی تیمارداری کے لئے جا رہی ہوں۔تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ اور مجھے جانے دو۔میری امی نے راستے میں کسی بھی اجنبی سے بات کرنے سے منع کیا تھا۔

بھیڑیے نے کہا ٹھیک ہے چلی جاؤ لیکن میرا خیال ہے کہ اگر تم نانی اماں کے لئے ان جنگلی پھولوں کا ایک گلدستہ بنا کر لے جاؤ تو وہ بہت خوش ہوں گے۔“شمائلہ کو یہ تجویز پسند آئی اور وہ جنگلی پھول توڑنے لگی۔
بھیڑیا بھاگم بھاگ نانی اماں کے دروازے پر پہنچا اور دروازے پر ہلکی سی دستک دی اندر سے نانی اماں نے پوچھا”کون ہے؟“چالاک بھیڑیے نے آواز بدل کر کہا”یہ میں ہوں نانی اماں․․․شمائلہ لال ٹوپی والی۔

نانی اماں بولیں”بیٹی دروازہ کھلا ہے اندر آ جاؤ“بھیڑیے نے دروازہ کھولا اور ایک ہی جست میں نانی اماں کی چارپائی کے قریب جا کھڑا ہوا اور پلک جھپکتے میں نانی اماں کو نگل گیا۔
اب اس نے نانی اماں کے کپڑے پہنے اور ان کا کمبل اوڑھ کر بستر پر لیٹ گیا۔کچھ دیر گزری تھی کہ شمائلہ وہاں آ پہنچی۔شمائلہ نے دروازے پر دستک دی تو چالاک بھیڑیے نے نانی اماں کی آواز کی نقل کرتے ہوئے پوچھا”کون ہے؟“شمائلہ بولی”یہ میں ہوں نانی اماں․․․․․شمائلہ لال ٹوپی والی”بھیڑیے نے نانی اماں کی آواز میں کہا”اندر آ جاؤ بیٹی․․․․دروازے کو کنڈی نہیں لگی ہوئی۔

شمائلہ دروازہ کھول کر خوش گھر کے اندر داخل ہوئی اور بولی”نانی اماں مجھے امی جان نے آپ کی خیریت دریافت کرنے بھیجا ہے اور اس ٹوکری میں انہوں نے آپ کے لئے کچھ پھل بھجوائے ہیں۔“بات کرتے کرتے شمائلہ کی نظر جب نانی اماں پر پڑی تو حیرت زدہ ہو کر پوچھنے لگی۔”آپ کے کانوں کو کیا ہوا یہ اتنے بڑے کیوں ہیں۔“
بھیڑیے نے کہا”بیٹی تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے ذرا میرے قریب تو آؤ۔
“شمائلہ نے بیڈ کے قریب آتے ہوئے کہا”اوہ․․․․نانی اماں آپ کی آنکھیں اس قدر بڑی کیسے ہو گئیں۔“بھیڑیے نے کہا”بیٹی ذرا میرے اور قریب آؤ“اب شمائلہ بیڈ کے بالکل پاس آ کر بولی”آپ کے دانت بھی بہت بڑے بڑے ہیں۔“بھیڑیے نے اپنی اصل آواز میں کہا”ہاں․․․میں تمہیں کھا جاؤں گا“یہ کہتے ہی بھیڑیا نانی اماں کے بستر سے نکل کر شمائلہ کو ہڑپ کر گیا۔

شمائلہ اور نانی اماں کو کھا کر بھیڑیا اسی جھونپڑی میں لیٹ کر سو گیا۔ادھر ایک لکڑ ہارا جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جا رہا تھا۔اچانک اسے یاد آیا کہ بوڑھی نانی اماں کافی دن سے بیمار ہیں۔لکڑ ہارے نے سوچا کیوں نہ میں جنگل میں لکڑیاں کاٹنے سے پہلے نانی اماں کو ملتا جاؤں۔یہ سوچ کر وہ نانی اماں کے گھر جا پہنچا۔وہاں اس نے دیکھا کہ نانی اماں کے بستر پر ایک نہایت خونخوار قسم کا بھیڑیا سو رہا ہے۔
جب کہ وہ خود گھر میں نہیں ہیں بھیڑیے کا پھولا ہوا پیٹ دیکھ کر لکڑ ہارا سمجھ گیا کہ نانی اماں کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔اس نے تیزی سے لکڑیاں کاٹنے والا کلہاڑا نکالا اور ایک ہی وار میں بھیڑیے کے دو ٹکڑے کر دیئے۔بھیڑیے کا پیٹ پھٹتے ہی نانی اماں اور شمائلہ باہر آ گریں۔لکڑ ہارا یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ دونوں صحیح سلامت تھیں۔
شمائلہ اور اس کی نانی اماں نے لکڑ ہارے کا شکریہ ادا کیا۔اور شمائلہ خوشی خوشی اپنے گھر واپس روانہ ہو گئی لیکن اس دن کے بعد کبھی شمائلہ نے کسی اجنبی سے بات نہ کی۔

Browse More Moral Stories