Sheer Ka Ehsaan - Article No. 763

Sheer Ka Ehsaan

شیر کا احسان - تحریر نمبر 763

پرانے زمانے میں شہر سے کوسوں دور ایک گاؤں میں سیلاب آگیا۔ ہزاروں لوگ پانی میں بہہ گئے۔ لاتعداد گھر تباہ و برباد ہوگئے اور سینکڑوں لوگ پانی میں ڈوبنے سے بچ تو گئے مگر اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ بچاتھا

پیر 2 جون 2014

شیر کا احسان
ابن سراج:
پرانے زمانے میں شہر سو کوسوں دور ایک گاؤں میں سیلاب آگیا۔ ہزاروں لوگ پانی میں بہہ گئے۔ لاتعداد گھر تباہ و برباد ہوگئے اور سینکڑوں لوگ پانی میں ڈوبنے سے بچ تو گئے مگر اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ بچاتھا۔
گاؤں میں ایک غریب کسان تھا۔ ایک سنار سے اس اچھی کی دوستی تھی۔ اس نے سنار کو تلاش کیا تو اتفاق سے اس کا گھر اور سب گھر والے سلامت تھے۔
کسان اپنی بیوہ کے ساتھ جب اپنے دوست سنار کے پاس پہنچا تو وہ بھی اپنی پرویشانی بیان کرنے لگا: ”بھائی! میرا گھر تو چلو سیلاب سے بچ گیا، مگر دکان سیلاب سے برباد ہوگئی اور تمام مال اور زیورات بھی سیلاب کی نظر ہوگئے۔“
”پھر کیا کریں؟“ کسان نے سنار سے سوال کیا۔
”میرا خیال ہے کہ شہر چلتے ہیں۔

(جاری ہے)

وہاں جاکر ضرور کہیں نہ کہیں نوکری یا مزدوری مل جائے گی۔

راستہ بہت طویل ہے او ہمارے پاس کوئی سواری بھی نہیں ہے۔“
”راستے میں جنگل بھی آتے ہیں۔“ کسان نے خیال پیش کرتے ہوئے کہا۔
”تو کیا ہو ہمت کرو، اللہ مالک ہیہ۔ یہاں تو کوئی ہماری مدد کیلئے بھی نہیں آئے گا۔ بادشاہ کو کیا پتا کہ ہم پر کیا مصیبت آکر گزر گئی ہے۔“
سنار کے خیالات سے کسان کو بہت حوصلہ ملا۔ اس کی بیوی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا: ”بھائی سنار! ٹھیک ہی تو کہتے ہیں۔
بادشاہ تک اپنے حالات اور مصیبت کی خبر دینی چاہیے۔“
”ٹھیک ہے تو کل صبح یہاں سے روانہ ہوں گے۔ “ سنار نے مشورہ دیتے وہئے کہا: ”ہم دونوں کے بیوی بچے گاؤں میں ہی رہیں گے۔ دوسرے گاؤں سے میرا بھائی کھانے پینے کا سامان لے کر آنے والا ہے، تم اس کی فکر نہ کرو۔“
”ہاں ہاں سنار بھائی! مشورہ تو تم نے ٹھیک ہی دیا ہے۔“
آخر دونوں نے ضرورت کا کچھ سامان ساتھ لیا اور شہر کی طرف چل پڑے۔
چلتے چلتے شام ہوجاتی تو کسی محفوظ درخت پر چڑھ جر آرام کرلیتے، پھر جب دن نکل آتا تو سفر شروع کردیتے۔ چلتے چلتے آخر کھانے پینے کا سامان بھی ختم ہوگیا۔ سنار کو بخار نے آگھیرا اور وہ بے چارہ چلنے سے بھی معذور ہوگیا۔ آخر کسان نے اسے درختوں کی آڑ میں محفوظ جگہ پر لٹا دیا۔ چاروں طرف آگ روشن کردی ، تاکہ کوئی موذی جانور یا درندہ قریب نہ آسکے اور خود گرتا پڑتا جنگلی پھل وغیرہ تلاش کرنے چل دیا۔
کچھ دور چلا تھا کہ راستے میں اسے ایک شیر ملا، جو درد کی تکلیف سے بے حال ہوئے جارہا تھا۔ شیر کو دیکھ کر کسان کو تھرتھری سی لگ گئی، مگر شیر پھر بھی نہ اٹھ سکا، بلکہ کسان سے کہنے لگا: ”اے بھائی! میں تجھے کچھ نہ کہوں گا، تو میری مدد کردے، اللہ تیرا بھلا کرے گا۔“
کسان نے شیر کو انسان کی زبان میں بات کرتے دیکھا تو اور بھی ڈرگیا۔

شیر نے کہا: ” اے بھائی! مجھ دے نہ ڈر۔ میں نے اللہ سے دعا مانگی ہے کہ مجھے بات کرنے کیلئے کچھ دیر کیلئے زبان دے دے۔“
کسان کے اندر ہمت پیدا ہوئی۔ اس نے قریب جا کر پوچھا: ”اب بتا تیری کیا مدد کروں؟“
”بھائی! میرے پچھلے پاؤں میں بہت بڑا کانٹا گھس گیا ہے۔ اس کی تکلیف سے مرا جاتا ہوں، تجھے خدا کا واسطہ یہ کانٹا نکال کر میری جان بچالے، ورنہ کوئی شکاری ادھر آگیا تو میر کمزوری سے فائدہ اٹھا کر مجھے قید کرلے گا۔

کسان نے خدشہ ظاہر کیا: ”کانٹا تو نکال دوں گا مگر کیا بھروسہ کہ تو مجھے کھانہ جائے؟“
شیر نے عاجزی سے کہا: ”وعدہ کرتا ہوں کہ میں تجھے ہر گز کوئی نقصان نہ پہنچاؤں گا، بھلا کوئی اپنے محسن کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ ایسا تو تم انسانوں میں ہوتا ہے۔“
کسان نے ہمت کی اور آگے بڑھ کر شیر کے پاؤں کے اندر تک گھسا ہوا کانٹا نکال دیا۔
زخم کو صاف کرکے اوپر رومال پھاڑ کر پٹی باندھ دی۔
شیر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ” اے نیک انسان! تیری اس نیکی کا میں کیا بدلہ دوں گا۔ آچل میرے ساتھ چل۔“
کسان شیر کے ساتھ چل پڑا کسان نے شیر سے کہا: ”اے شیر بھائی! میرا ایک اور ساتھی بھی کچھ دور جنگل میں بیمار پڑا ہوا ہے اور کمزوری کی وجہ سے اس سے چلا بھی نہیں جارہا ہے۔ پہلے مجھے کچھ کھانے کیلئے جنگلی پھل وغیرہ کا درخت بتادے تو مہربانی ہوگی۔

شیر نے کہا: ”اے نیک انسان! تیرا دوست بھی میرا دوست ہے۔ سن ابھی کچھ دنوں پہلے دو شکاری اس جنگل میں مجھے شکار کرنے آئے تھے۔ میں نے اور میری شیرنی نے موقع پا کر ان دونوں پر حملہ کر انہیں ہلاک کردیا تھا۔ ان کے ساتھ کھانے پینے کا سامان تھا۔ وہ محفوظ ہے۔ آپہلے ادھر چل اور وہ سامان تو اٹھا کر لے جا اور پھر میں تجھے ایک ایسی نایاب بوٹی کا پودا دکھاؤں گا چاہے کیسا ہی بیمار ہو ا سکی پتیاں پیس کر مریض کو پلادیں۔
ان شاء اللہ ایک دو دن میں بالکل تندرست اور توانا ہوجائے گا۔ ہم جانور بھی بیمار ہوجاتے ہیں تو اکثر یہی بوٹی تلاش کر کے کھالیتے ہیں۔ پھر شیر نے ایک درخت کے نیچے کھانے پینے کے سامان کی طرف لے جا کر کہا: ”اے نیک آدمی! یہ سامان اٹھالے۔“
کسان کھانے پینے کا سامان کپڑے میں باندھ کر کاندھے پر اٹھا کر شیر کے ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دور جا کر شیر نے چھوٹے چھوٹے پودوں کی طرف پنجے سے اشارے کرتے ہوئے کسان سے کہا: ”یہ ہے وہ پودا جو ہر بیماری میں اللہ کے کم سے شفا دیتا ہے۔
غریب آدمی نے جلدی جلدی کچھ پودے تو ڑ کر سامان میں رکھ لیے۔
شیر نے مشورہ دیا: ”یہ بوٹی تم اپنے دوست کو کسی پتھر سے کچل کر پانی سے کھلا دینا، انشاء اللہ کچھ ہی دیر میں تندرست ہوجائے گا۔“
کسان نے شیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ”اے اچھے شیر! تیرا بہت بہت شکریہ۔ اب مجھے اجازت چاہیے۔ میرا دوست میرا انتظار کررہا ہوگا۔“
شیر نے کہا: ”اے بھائی! اتنی جلدی نہ کر مجھے کچھ اور بھی خدمت کرنے دے۔
کافی دنوں پہلے ایک شہزادہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں شکار کھیلنے آیا تھا۔ مگر چیتے اور ریچھ نے ان پر اچانک حملہ کردیا تھا۔ کچھ جان بچا کر بھاگ نکلے، مگر شہزادہ اور اس کا ایک ساتھی مارے گئے تھے۔ شہزادے کے گلے میں موتیوں کے ہار تھے۔ چیتا اور ریچھ ان کی لاشوں کو کھارہے تھے کہ اچانک میرا ادھر سے گزر ہوگیا۔ میں جو زور سے دہاڑا تو وہ ڈر کر بھاگ گئے۔
یہ ہیرے موتیوں کے ہار میں لے آیا اور اپنے غار می ایک جگہ چھپا دیے تھے۔ یہ تم لے جاؤ اور بادشاہ کو دے دینا۔ شاید بادشاہ اور ملکی شہزادے کے غم میں روتے ہوں گے۔ شیر کسان کو غار کے اندر لے گیا اور پنجے مار کر ایک جگہ گھاس میں چھپے ہوئے ہار کسان کو دکھاتے ہوئے کہا: ” اسے تم لے جاؤ، جو چاہو کرلینا، مگر اچھا ہو کہ بادشاہ کو پنا دو تاکہ تمہیں اس سے زیادہ انعام ملے۔

کسان نے شیر کا شکریہ ادا کیا۔ شیر نے کہا: ” جاؤ خدا حافظ ہمیشہ نیک رہنا اور نیکی کرتے رہنا۔ “ کسان شیر سے رخصت ہو کر اپنے ٹھکانے پر آگیا۔ سنار کو اٹھا کر اسے بوٹی کچل کرپلادی۔ کچھ دیر میں سنار کا بخار ختم ہوگیا اور وہ بھلا چنگا نظر آنے لگا۔ کسان نے اسے جب تمام حالات بتائے اور شہزادے کے قیمتی جواہر کے ہار دکھائے تو سنار کے دل میں لالچ پیدا ہوگیا او جواہرات چرانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔
کھانے پینے کا ذخیرہ مل چکا تھا۔ لہٰذا دونوں پھر شہر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں آتا ہوا قافلہ مل گیا او وہ بھی قافلے میں شامل ہوکر چل پڑے۔
شہر کے پاس ایک مسافر خانے میں یہ دونوں ٹھہر گئے۔ سنار کے دل میں لالچ تھا۔ جیسے ہی موقع ملا وہ جواہرات چرا کر بھاگ نکلا اور گھر کی راہ لی۔
ادھر ملکہ بیٹے کے غم میں بیمار ہو کر موت او زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھی۔
بادشاہ کا اعلان تھا کہ جو کوئی ملکہ کا علاج کر کے اسے اچھا کرے گا، اسے آدھی سلطنت انعام دی جائے گی۔ ملکہ روز بروزموت کی طرف جارہی تھی۔ بڑے بڑے مشہور طبیب آرہے تھے، مگر کسی سے شفا نہیں ہورہی تھی۔ کسان بادشاہ کے محل پہنچ گیا اور سپاہیوں سے آنے کا مقصد بیان کیا تو وہ اسے بادشاہ کے پاس لے گئے۔
بادشاہ نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا: ”اے شخص! یہاں کئی ملکوں کے معالج آئے ہیں تم تو طبیب بھی نہیں لگتے، کہو پھر کیسے علاج کروگے؟ ہم پہلے ہی شہزادے کی جدائی کے غم میں مبتلا ہیں۔

کسان نے کہا: ”اللہ آپ کو اور ملکہ کو سلامت رکھے۔ بادشاہ سلامت! مایوس کویں ہوتے ہیں۔ آپ مجھے ملکہ عالیہ کے پاس لے چلیں۔ ان شاء اللہ پہلی ہی خوراک سے ملکہ عالیہ تندرست ہونے لگیں گی۔“
”اچھا یہ بات ہے تو آؤ میرے ساتھ۔“
بادشاہ ملکہ کے پاس کسان کو لے کر آگیا۔ کسان نے جیب سے بوٹی نکال کر اسے پانی میں گھول کر جیسے ہی پلایا، ملکہ کے ہاتھ پاؤں میں جنبش ہونا شو ہوگئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
دوسرے دن وہ بات چیت کرنے کے قابل ہوگئی۔ تما کادم، کنیزیں اور خودبادشاہ بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ شام تک ملکہ جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہوگئی۔
بادشاہ نے غریب اور نادار عوام کیلئے خزانے کے منھ کھول دیے۔ کسان کو آدھی سلطنت دینے کا بھی اعلان کردیا گیا۔
کسان نے بادشاہ سے کہا: ”عالی جاہ! شہزادہ شکار کے دوران مارا گیا تھا۔
پھر اس نے شروع سے لے کر آخر تک سارے حالات کا بادشاہ سے خر کرتے ہوئے سنار ک بدعہدی اور دھوکے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سنار شہزادے کے قیمتی ہار چرا کر فرار ہوگیا ہے۔ گاؤں میں سیلا ب اور اس سے ہونے الی تباہیوں سے ابدشاہ کو آگاہ کرتے ہوئے اس سے مدد کرنے کی اپیل بھی کی۔
بادشاہ کو سنار کی دھوکے بازی پر سخت غصہ آیا۔ اس نے فوراََ سپاہیوں کا ایک دستہ روانہ کرتے ہوئے سنار کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کردیا اور گاؤں والوں کیلئے امدادی سامان اور مدد کیلئے کارندے علاحدہ روانہ کردیے۔
سنار کو اس کے گھر سے گرفتار کر کے سرقلم کردیا گیا۔
بادشاہ نے اعلان کرتے ہوئے غصے سے کہا: ”چوروں، لٹیروں کیلئے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔“
بادشاہ نے کسان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے آدھی سلطنت دینے کی خواہش کی تو کسان نے کہا: ”بادشاہ سلامت! آپ اور آپ کی حکومت کو اللہ سلامت رکھے، آپ کی ضرورت آپ کے ملک کو ہے۔“
بادشاہ اس جواب سے بہت خوش ہا اور اسے اپنا بیٹا بناکر بعد میں وزیراعظم بنادیا۔

Browse More Moral Stories