Bhool Bhulakar - Article No. 1398

Bhool Bhulakar

بھول بھلکڑ - تحریر نمبر 1398

کسی جنگل میں ایک ننھا منا ہاتھی رہا کرتا تھا۔نام تھاجگنو۔میاں جگنو ویسے تو بڑے اچھے تھے

بدھ 1 مئی 2019

کسی جنگل میں ایک ننھا منا ہاتھی رہا کرتا تھا۔نام تھاجگنو۔میاں جگنو ویسے تو بڑے اچھے تھے۔ننھی سی سونڈ ،ننھی سی دم اور بوٹا ساقد،بڑے ہنس مکھ اور یاروں کے یار ،مگر خرابی یہ تھی کہ ذرادماغ کے کمزور تھے۔بس کوئی بات ہی نہیں رہتی تھی۔امی جان کسی بات کو منع کرتیں توڈر کے مارے ہاں تو کر لیتے مگر پھر تھوڑی ہی دیر بعد بالکل بھول جاتے اور اس بات کو پھر کرنے لگتے۔
اباجان پریشان تھے تو امی جان عاجز ،تمام ساتھی میاں جگنو کامذاق اڑاتے اور انہیں بھول بھلکڑ کہا کرتے۔
اباجان میاں جگنو کاکان زور سے اینٹھ کر کہتے۔دیکھو بھئی جگنو۔تم نے تو بالکل ہی حد کر دی۔بھلا ایسا بھی دماغ کیا کہ کوئی بات یادہی نہ رہے۔تم باتوں کو یاد رکھنے کی کوشش کیا کرو۔ہاتھی کی قوم تو بڑے تیز دماغ ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

برس ہا برس کی باتیں نہیں بھولتی ۔

مگر خدا جانے تم کس طرح کے ہاتھی ہو ۔ اگر تمہاری یہی حالت رہی تو تم سارے خاندان کی ناک کٹوادوگے۔
جگنو میاں جلدی سے اپنی ننھی سی سونڈ پر ہاتھ پھیرتے اور سرہلا کر کہتے۔اباجان اب کے تو معاف کر دیجئے۔آئندہ میں ضرور باتیں یاد رکھنے کی کوشش کروں گا۔مگر یہ ہمیشہ کی طرح بھول جاتے اور اپنی کرنی سے باز نہ آتے اور بھئی بات یہ ہے کہ دنیا میں اتنی بہت سی تو باتیں ہیں ۔
بھلاکوئی کہاں تک یاد رکھے۔اونھ۔
اب مثلاً تمام ہاتھی بن مانسوں سے نفرت کرتے تھے۔کیوں کہ آج سے سوبرس پہلے کسی بن مانس نے ایک بڑاساناریل کسی ہاتھی کے منہ پر دے مارا تھا۔اس دن سے تمام ہاتھی بن مانسوں کے دشمن ہوگئے۔یہ بات جگنو کو بہت سے ہاتھیوں نے سمجھائی تھی مگر میاں جگنو تو تھے ہی بھول بھلکڑ ،کئی بار کان پکڑ کر تو بہ کی کہ اب بن مانسوں کے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلوں گا۔
کھیلنا کیسا ان کی صورت بھی نہیں دیکھوں گا۔
مگر دوسرے ہی دن ساری توبہ بھول جاتے اور پھر ان کے ساتھ کبڈی کھیلنا شروع کر دیتے ۔ہاتھیوں کے دوسرے دشمن طوطے تھے۔ہاتھی ان سے بھی بڑی نفرت کرتے تھے۔بات یہ تھی کہ ایک دفعہ کوئی ہاتھی بیمار ہو گیا۔اس لیے ہاتھوں نے طوطوں سے کہا کہ شورمت مچایا کرو۔اس سے مریض کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے ،مگر توبہ،وہ طوطے ہی کیا جوٹیں ٹیں کرکے آسمان سر پر نہ اٹھالیں۔
اس دن سے ہاتھی طوطوں سے بھی بیررکھنے لگے ۔
وہ تو کہو ان کے بس کی بات نہیں تھی ورنہ انہوں نے تو کبھی کی ان کی چٹنی بنا کر رکھ دی ہوتی ،جگنو کے ماں باپ اور یار دوستوں نے اسے یہ بات بھی کئی مرتبہ بتائی تھی اور کہا تھا کہ طوطوں سے ہماری لڑائی ہے ۔تم بھی ان سے بات مت کیا کرو۔مگر میاں جگنو بن مانس والی بات کی طرح یہ بات بھی بھول جاتے اور طوطوں کو اپنی پیٹھ پر چڑھا کر سارے جنگل میں کودے کودے پھرتے۔

میاں جگنو کی یہ حرکتیں دیکھ کر ہاتھیوں نے اس سے بول چال بند کر دی ۔بڑے بڑے ہاتھیوں نے کہا۔جگنو کا حافظہ اتنا خراب ہے کہ کسی کی دوستی اور دشمنی کو نہیں سمجھتا بھلا یہ کسی سے دشمنی کیا کر سکے گا۔
تمام ہاتھی اس کو بے وقوف کہہ کہہ کر چڑاتے اور اس پر پھبتیاں کستے۔مگر جگنو کو کسی کی پروا نہیں تھی۔وہ اتنا سیدھا سادا اور نیک دل تھا کہ وہ ان کے مذاق کا بالکل برانہ مانتا تھا اور پھر اس کا حافظ بھی تو کمزور تھا۔

اسے یاد ہی نہیں رہتا تھا کہ کون دوست ہے کون دشمن ،کون سی بات اچھی ہے ،کون سی بری۔
ایک دن ایک بڑا ہی خوفناک واقعہ پیش آیا۔جنگو جنگل میں ٹہلتا پھررہا تھا کہ ایسا معلوم ہوا جیسے ایک دم زمین پھٹ گئی اور وہ اس میں سما گیا۔اصل میں شکاریوں نے یہ گڑھا کھودکر اس کے اوپر گھاس پھونس ڈھانپ دیا تھا تاکہ ہاتھی اس کے اوپر سے گزریں تو نیچے گر پڑیں اور پھر وہ انہیں پکڑ لیں ۔
قسمت کی بات ،میاں جگنو ہی کی شامت آگئی۔
ایک دم اوپر سے گرنے سے میاں جگنو کے بہت چوٹ آئی تھی ۔تھوڑی دیر تک تو اس کی سمجھ میں یہی نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا۔آخر جب اس نے آنکھیں ملیں اور ادھر ادھر دیکھا تو پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک گہرے گڑھے میں گر پڑا ہے ۔اب تو اس کی جان نکل گئی ۔اس نے پیر پٹک پٹک کر اور ادھر ادھر ٹکریں مار مار کر لاکھ کوشش کی کہ کسی طرح گڑھے سے نکل جائے مگر کچھ بن نہ پڑی ۔
بے چارے نے ہر طرف سے مایوس ہو کر زور سے چنگھاڑنا شروع کر دیا۔ابا،ابا،اماں،اماں ! دوڑ ودوڑو۔
جگنو کی چیخیں سن کر جنگل کے تمام ہاتھی دوڑ پڑے اور گڑھے کے پاس کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے لگے۔جگنو نے چیخ کر کہا۔
میں ہوں جگنو،،اس گڑھے میں پڑا ہوں ۔خدا کے لیے مجھے یہاں سے نکالو۔
اس کے ماں باپ نے نیچے جھک کر اسے دیکھا۔چند بڑے بوڑھے ہاتھی بھی اس کے پاس آگئے۔
سب کے سب پریشان تھے ۔امی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ جگنو کو اس مصیبت سے کس طرح نجات دلائیں۔ انہیں خاموش دیکھ کر جگنو کا دل بیٹھ گیا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولا۔
تم مجھے یہاں سے نہیں نکال سکتے،میری مدد کوئی نہیں کر سکتا ،اف میں کیا کروں۔
سب ہاتھیوں نے مایوسی سے سر ہلایا اور آہستہ آہستہ چلے گئے۔چلتے وقت اس کی ماں نے کہا۔

جگنو!گھبرانا مت،ہم تمہارے لیے کھانا لے کر آتے ہیں ۔مگر جگنو کو کھانے کی ضرورت نہ تھی۔وہ اس گڑھے سے نکلنا چاہتاتھا۔
ہاتھی چلے گئے تو اس نے ایک گہری سانس لی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اچانک اسے سر پر بہت سے پروں کے پھڑ پھڑانے کی آواز آئی۔اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو رنگ برنگے طوطے نظر آئے۔یہ سب اس کے دوست تھے جنہیں وہ اپنی پیٹھ پر چڑھا کر جنگل کی سیرکراتا تھا۔
کچھ طوطے گڑے پر آکر بولے۔جگنو گھبراؤ نہیں ۔ہم ابھی تمہیں اس مصیبت سے چھٹکارا دلاتے ہیں ۔خاطر جمع رکھو۔
یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور پھر جگنو نے سنا کہ طوطے بن مانسوں کو آوازیں دے رہے ہیں ۔تھوڑی دیر بعد طوطے بہت سے بن مانسوں کو لے کر آگئے۔ان کے ہاتھوں میں انگوروں کی لمبی لمبی رسیوں جیسی بیلیں تھیں ۔انہوں نے بیلوں کے سرے گڑھے میں لٹکا دیے اور کچھ بن مانس ان کے ذریعے گڑے میں اتر گئے ۔
جگنو انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔اب اسے باہر نکلنے کی کچھ امید ہو گئی تھی۔ہنس کر بولا۔میرے دوستو! کیا تم مجھے باہرنکالنے میں کامیاب ہو جاؤ گے۔
بن مانس بولے۔کیوں نہیں ضرور! خدا نے چاہا تو ابھی ابھی ہم تمہیں اوپر کھینچ لیں گے اگر کوئی اور ہاتھی ہوتا تو ہم ذرا بھی پروانہ کرتے یوں کہ وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں ۔مگر تماری بات دوسری ہے ،تم ہمارے دوست ہو اور دوست کی مدد کرنا دوست کا فرض ہے ۔
لواب ذراتم سیدھے کھڑے ہو جاؤ تا کہ ہم تمہیں ان رسیوں سے باندھ دیں۔
جگنو کھڑا ہو گیا اور بن مانسوں نے اسے رسیوں سے خوب جکڑ دیا پھر وہ ان تمام رسیوں کو لے کر گڑھے سے باہر چلے گئے اور انہیں سب کوبٹ کر ایک موٹی سی رسی بنالی۔پھر ایک بن مانسوزور سے بولا۔ہوشیار،خبردار۔
سب کے سب بن مانسوں نے رسی کو مضبوطی سے تھام لیا اور تن کر کھڑے ہو گئے اسی بن مانس نے پھر کہا۔
کھینچو،ایک ساتھ۔
اب سارے بن مانس رسی کو پوری طاقت سے کھینچنے لگے۔
ایک زور کے جھٹکے کے ساتھ جگنو کے پیر ایک دم زمین سے اٹھ گئے اور پھر وہ آہستہ آہستہ اوپر اٹھتا گیا۔اس کا دل دھک دھک کررہاتھا،بدن پرپسینے چھوٹ رہے تھے ،اگر رسی ٹوٹ گئی تو ،تو وہ پھر دھڑام سے نیچے گرپڑے گا۔بن مانس برابررسی کھینچ رہے تھے اور ساتھ ساتھ شور بھی مچاتے جاتے۔
ہاں شاباش،کیا کہنے بہادرو،بس تھوڑا سا فاصلہ اوررہ گیا ہے ۔ہاں لگے زور۔
تھوڑی دیر میں میاں جگنو زمین کے اوپر تھے۔انہوں نے حیرت سے آنکھیں ملیں ۔چروں طرف دیکھا اور جب سب دوستوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں ۔تب وہ سمجھے کہ میں سچ مچ اوپر آگیا ہوں ۔نئی زندگی پا کر جگنو کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔کھلکھلائے پڑتے تھے ۔یار دوستوں سے خوب خوب گلے ملے اور بولے۔
تم سچ مچ میرے دوست ہو ۔دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے۔چلو سب میری پیٹھ پر چڑھ جاؤ۔
جگنو میاں گھر پہنچے تو ماں باپ رورہے تھے ۔ان کے لیے تو میاں جگنو ختم ہو چکے تھے لیکن انہیں ایکا ایکی آتا ہوا دیکھ کر دن رہ گئے۔امی جان ،میرے لال کہہ کر چمٹ گئیں۔اباجان نے بھی پیار کیا۔جب دلوں کی بھڑ اس نکل چکی تو میاں جگنو نے بتایا کہ جن جانوروں کو آپ دشمن سمجھتے اور انہیں ہمیشہ نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے ،انہوں نے ہی میری جان بچائی تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے میاں جگنو کو اجازت دے دی کہ تم خوشی سے طوطوں اور بن مانسوں کے ساتھ کھیلا کرو،تمہیں کوئی نہیں روکے ٹوکے گا۔
اس دن سے تمام ہاتھیوں نے انہیں بے وقوف بھی کہنا چھوڑ دیا اور ان سے ہنسی خوشی ملنے جلنے لگے۔
جگنو کے ماں باپ کو آج پہلی بار معلوم ہوا کہ دوسروں کے خلاف دل میں خواہ مخواہ حسد اور دشمنی رکھنے سے یہ بہتر ہے کہ انہیں دوست بنایا جائے تاکہ وہ وقت پر کام آسکیں ۔

Browse More Moral Stories