Waqt Aik Sa Nahi Rehta - Article No. 2358

Waqt Aik Sa Nahi Rehta

وقت ایک سا نہیں رہتا - تحریر نمبر 2358

یہ ضروری تو نہیں کہ اگر آغاز بُرا ہو تو انجام بھی خراب ہو

پیر 26 ستمبر 2022

جاوید بسام
بہت دور کہیں ایک باغ کے قریب تین دوست رہتے تھے۔وہ اکثر باغ کی باڑ پر بیٹھے نظر آتے۔باڑ کے ساتھ ہی ایک بڑا تالاب بھی تھی۔جب سورج کی شعاعیں درختوں کے پتوں اور پانی پر چمک رہی ہوتیں اور تیز ہوا سائیں سائیں کر رہی ہوتی تو کچھ دور ایک درخت پر رہنے والا اُلو اُڑ کر باڑ پر آجاتا اور زور سے آواز نکالتا۔
اسی وقت تالاب کے پانی میں لہریں پیدا ہوتیں اور ایک بڑا سبز مینڈک اپنا سر نکال کر دیکھتا۔پھر وہ بھی تیرتا ہوا پانی سے باہر نکل آتا اور پھدکتا ہوا باڑ کے پاس آجاتا،اچانک کُٹ کُٹ․․․․کی آواز آتی اور ایک موٹی سی کالے پروں والی مرغی باغ کے کسی کونے سے نمودار ہوتی اور اس محفل میں شریک ہو جاتی۔تینوں اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے اور اپنے اپنے دل کا حال سناتے۔

(جاری ہے)

اُلو کو انسانوں سے شکایت تھی کہ وہ اسے پسند نہیں کرتے۔مینڈک کو تالاب کے آلودہ ہونے والے پانی کا غم تھا اور مرغی اس بات پر خفا تھی کہ فارم کا مالک اسے انڈوں پر بیٹھنے کیوں نہیں دیتا۔
ایک دن تینوں اسی طرح باتیں کر رہے تھے کہ ان میں ایک دلچسپ بحث چھڑ گئی۔اُلو اور مینڈک کا خیال تھا کہ کسی بھی انسان کے لئے اپنے حالات کو بدلنا بہت مشکل کام ہے۔
جب کہ مرغی کا کہنا تھا کہ اگر کوشش کی جائے تو حالات بدل سکتے ہیں۔اُلو نے مرغی کو قائل کرنے کی کوشش کی اور بولا:”چلو،میں تم کو ایک نوجوان لڑکے کا قصہ سناتا ہوں۔“مرغی سنبھل کر بیٹھ گئی۔
اُلو کچھ سوچتا رہا پھر بولا:”پہلے میں بہت دور ایک آٹا پیسنے کی چکی میں رہتا تھا۔اس کا مالک ایک ظالم آدمی تھا۔وہ اپنے ملازموں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا تھا۔
وہاں ایک نوجوان لڑکا بھی کام کرتا تھا۔ظالم مالک اس سے بہت زیادہ کام لیتا اور بہت کم تنخواہ دیتا تھا۔لڑکا بے روزگاری کی وجہ سے مجبور تھا۔وہ سارا دن کام میں لگا رہتا تھا۔اسے سارا دن سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں ملتی تھی،لیکن اتنا کام کرنے کے باوجود مالک اس سے خوش نہیں تھا۔وہ بات بات پر اسے ڈانٹتا اور کبھی تو مار بھی بیٹھتا تھا۔ایک دن اس نے لڑکے کو مار مار کر اس کا منہ سجا دیا۔
آخر وہ روتا ہوا وہاں سے چلا گیا اور پھر کبھی وہاں نہیں آیا۔میرا خیال ہے،آج بھی وہ اسی طرح کہیں چھوٹا موٹا کام کر رہا ہو گا اور ضرور مار کھاتا ہو گا۔“یہ کہہ کر اُلو خاموش ہو گیا۔
مرغی نے انکار میں گردن ہلائی اور کہا:”یہ ضروری نہیں کہ وہ آج بھی بُری حالت میں ہو،کیونکہ میں جانتی ہوں کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔“
مینڈک نے کہا:”مرغی بہن!میرا خیال ہے کہ حالات بدلنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
خیر،دوستو!مجھے بھی ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔تمہیں معلوم ہے،میری دنیا تو پانی تک محدود ہے۔میں تالاب میں وقت گزارتا ہوں۔مجھے انسانوں سے زیادہ واسطہ نہیں پڑتا،مگر جب میں بچہ تھا تو اکثر پانی سے باہر گھومتا رہتا تھا۔ایک دن میں نے تالاب کے کنارے ایک نوجوان کو آتے دیکھا۔وہ بہت دبلا پتلا اور کمزور تھا۔میں اسے دیکھ کر ڈر گیا،لیکن اس نے مجھ پر دھیان نہیں دیا۔
وہ پانی میں ڈور ڈال کر ایک ٹیلے پر بیٹھ گیا۔سارا دن وہ شکار کے انتظار میں بیٹھا رہا،مگر اس کے ہاتھ بس ایک دو چھوٹی مچھلیاں ہی آئیں۔پھر وہ روزانہ وہاں آنے لگا۔ایسا لگتا تھا کہ وہ بے روزگار ہے اور اپنے حالات سے پریشان ہے۔اس لئے مچھلیاں شکار کرکے اپنا پیٹ پال رہا ہے۔وہ سارا دن تالاب کے کنارے گزارتا،لیکن اسے اس محنت کا بہت کم صلہ ملتا تھا۔
کیونکہ پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے مچھلیاں کم ہو گئی تھیں۔ایک دن تو حد ہو گئی وہ بے چارہ سارا دن پانی میں ڈور ڈالے بیٹھا رہا،لیکن ایک بھی مچھلی اس کی ڈور میں نہیں پھنسی۔آخر وہ مایوسی سے اُٹھا اور اتھلے پانی میں چھوٹی مچھلیاں تلاش کرنے لگا۔میں وہیں تیر رہا تھا۔اس نے غلطی سے مجھے مچھلی سمجھ کر پکڑ لیا۔مجھے لگا اب میرا آخری وقت آگیا ہے،لیکن جب اس نے مجھے غور سے دیکھا تو فوراً چھوڑ دیا اور مایوسی سے قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔
اس دن کے بعد وہ پھر کبھی وہاں نہیں آیا۔میرا خیال ہے وہ لڑکا آج بھی دَر دَر کی ٹھوکریں کھا رہا ہو گا۔“یہ کہہ کر مینڈک خاموش ہو گیا۔
مرغی نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا:”تم دونوں عجیب باتیں کر رہے ہو۔یہ ضروری تو نہیں کہ اگر آغاز بُرا ہو تو انجام بھی خراب ہو۔سنو!میں بھی تمہیں ایک نوجوان لڑکے کے بارے میں بتاتی ہوں۔میں جس فارم میں رہتی ہوں۔
وہاں بہت سارے مرغے مرغیاں ہیں۔فارم کے مالک کو ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک ملازم کی ضرورت تھی۔ایک دن اس کے پاس ایک لڑکا آیا۔وہ بہت پریشان تھا اور ملازمت تلاش کر رہا تھا،مالک نے اس سے بات کی اور اُسے ملازم رکھ لیا۔لڑکا محنت سے کام کرنے لگا۔وہ نہ کام چوری کرتا اور نہ انڈے چراتا۔وہ اپنے کام سے بہت مخلص تھا۔کچھ مہینے ہی گزرے تھے کہ مالک نے اس کی محنت کو دیکھتے ہوئے اس کی تنخواہ بڑھا دی۔
مالک نے اس کے آنے کے بعد یہ محسوس کیا تھا کہ اس کا فارم ترقی کر رہا ہے۔اس بات کو دو سال ہو گئے ہیں۔آج وہ نوجوان فارم کا منیجر بنا ہوا ہے۔اسے اچھی تنخواہ ملتی ہے،مالک نے رہنے کے لئے اسے فارم پر گھر بھی دے دیا ہے اور لڑکے نے اپنی ماں کو بھی اپنے پاس بلا لیا ہے۔“
یہ کہہ کر مرغی خاموش ہو گئی۔وہ تیزی سے کچھ سوچ رہی تھی پھر بولی:”ارے!کہیں وہ وہی لڑکا تو نہیں جس کا تم دونوں نے ذکر کیا ہے؟“
اُلو بولا:”ناممکن وہ کوئی دوسرا لڑکا ہو گا۔

”بہت مشکل ہے وہ تو نہ جانے اب کہاں ہو گا۔“مینڈک نے کہا۔
مرغی سوچتے ہوئے بولی:”میرا دل کہہ رہا ہے کہ وہ وہی لڑکا ہے۔کیا تم مجھے اس کا حلیہ بتا سکتے ہو؟“
اُلو نے کہا:”وہ دبلا پتلا بالکل کمزور لڑکا تھا اور اس کے گال پر برا سا کالا مَسّا بھی تھا۔“
مینڈک نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں حیرت سے ہلاتے ہوئے کہا:”میں نے جو تالاب کے کنارے لڑکا دیکھا تھا،وہ بھی دبلا پتلا تھا اور اس کے گال پر بھی مَسّا تھا۔

مرغی نے گردن ہلائی اور بولی:”چلو ذرا میرے ساتھ فارم تک چلو۔“
دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا اور اس کے ساتھ چل دیے۔فارم قریب ہی تھا۔وہ جلد وہاں پہنچ گئے۔مرغی اور مینڈک پھاٹک سے اندر داخل ہوئے اور اُلو دیوار پر جا بیٹھا۔مرغی نے ان دونوں کی توجہ ایک نوجوان کی طرف دلوائی جو کچھ دور پیٹھ موڑے بورے میں سے چارہ نکال رہا تھا۔
تینوں غور سے اسے دیکھنے لگے۔لڑکا کام کرکے پلٹا تو انھوں نے اسے دیکھا۔وہ وہی محنتی نوجوان تھا۔اس کے گال پر بڑا سا کالا مَسّا تھا اور وہ اب کچھ صحت مند بھی ہو گیا تھا۔مینڈک اور اُلو شرمندگی سے مسکرائے اور مرغی کی طرف دیکھ کر گردن ہلائی۔دونوں نے اپنی غلطی مان لی تھی۔وہ جان گئے تھے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔جو لوگ محنت اور ثابت قدمی سے کام کرتے ہیں۔ان کے بُرے حالات بھی ایک دن بدل جاتے ہیں اور کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔

Browse More Moral Stories