Hamari Pahchan - Article No. 2395
ہماری پہچان - تحریر نمبر 2395
حمزہ کی فرمائش پر دادا نے وعدہ کیا کہ وہ اسے اردو پڑھنا اور لکھنا سکھائیں گے
بدھ 16 نومبر 2022
سید ہاجرہ ریحان
چودہ سالہ حمزہ رات کو دیر تک سوچوں میں گم رہا۔وہ کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتا تھا۔وہ اس زبان کو جاننا چاہتا تھا جس میں لکھی گئی ہزاروں کتابیں،اخبار،رسالے بڑے سے گھر کے ایک بوسیدہ حصے میں بنے ہوئے کمرے میں موجود تھیں۔یہ کمرہ کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔
دوپہر میں جب گھر کے تمام افراد آرام کر رہے تھے،تب حمزہ اس کمرے میں چلا گیا۔کمرے کی چابی اسے اسٹور میں پرانی چابیوں کے گچھے سے ملی تھی۔
کمرے میں کئی الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔لکڑی کی میز پر کچھ ڈائریاں موجود تھیں۔ہر چیز پر گرد کی موٹی تہ جمی ہوئی تھی۔کمرے کی حالت سے اندازہ ہو رہا تھا کہ سال ہا سال سے یہاں کوئی نہیں آیا۔حمزہ نے وہاں سے کچھ کتابیں اُٹھا کر پڑھنے کی کوشش کی،لیکن کتابوں کی عبارت اس کی سمجھ میں نہ آئی۔
یہ کتابیں کسی ایسی زبان میں تحریر تھیں،جسے وہ نہیں سمجھتا تھا۔آخر تھک کر وہ اپنے کمرے میں آ گیا۔اگلے دن صبح دادا اپنے معمولات میں مشغول تھے۔جب حمزہ ان کے کمرے میں داخل ہوا۔اس نے دادا سے اس کمرے کے بارے میں پوچھا تو دادا نے اس کو پوری بات بتا دی۔انھوں نے کہا:”میرے والد یعنی تمہارے پردادا اردو ادب کا ذوق رکھتے تھے،انھوں نے اتنا بڑا کتب خانہ بنایا۔پھر رفتہ رفتہ قوم سے ان کی قومی زبان چھین لی گئی۔قوم کو قومی زبان اردو کے بجائے انگریزی پڑھنے پر مجبور کیا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ جب قومی زبان کی جگہ انگریزی نام کی ایک اجنبی زبان بچے پر تھوپی گئی تو وہ تعلیم سے بھاگنے لگے۔قائداعظم نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا،لیکن ہمیں آزاد پاکستان دینے والے دور اندیش رہنما کی بات نہ مان کر ان کی توہین کی گئی۔وطن دشمنوں کا مقصد پورا ہو گیا۔جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں،سب نے اپنی اپنی قومی زبان میں اپنے بچوں کو تعلیم دی۔چین،جرمن،روس،برطانیہ،فرانس،امریکا وغیرہ کسی نے اپنے بچوں کو غیر ملکی زبان میں تعلیم نہیں دی۔دل روتا ہے یہاں انگریزی کے خنجر سے اردو کو قتل کیا جا رہا ہے۔ادھر موبائل فون نے اردو رسم و الخط کو ختم کرنے کی ٹھان لی،یعنی اردو کو بھی انگریزی حروف میں لکھا جا رہا ہے۔ایک انگریز فلسفی نے یہ بات یوں کہی:”زبان ختم کرنے کے لئے کسی کتب خانے کو آگ لگانے کی ضرورت نہیں،رسم الخط بدل دینا کافی ہے۔“
اردو بگاڑے میں اخبار اور ٹی وی چینل برابر کے شریک رہے۔اگر یہی حال رہا تو رفتہ رفتہ ایک دن اردو زبان کا رسم الخط مکمل طور سے ختم جائے گا اور قوم رومن رسم الخط استعمال کرتے ہوئے اپنی شناخت کھو کر اپنی روشن تاریخ سے بیگانہ ہو جائے گی۔ضرورت کے تحت انگریزی ضرور سیکھو،لیکن اپنی تہذیب اور ثقافت کو ختم نہ کرو۔“
حمزہ بڑے غور سے یہ حیرت انگیز اور افسوس ناک حقائق سن رہا تھا۔
دادا کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔حمزہ بھی اپنی شناخت کھونے پر رنجیدہ تھا۔غم میں ڈوبی دادا کی باتیں سن کر اس نے عہد کر لیا کہ وہ اردو کر مرنے نہیں دے گا،کیونکہ اردو ہی ہماری پہچان ہے۔دادا نے اسے بتایا کہ وہ اردو زبان کا حقیقی خط جانتے ہیں۔حمزہ کی فرمائش پر دادا نے وعدہ کیا کہ وہ اسے اردو پڑھنا اور لکھنا سکھائیں گے۔حمزہ نے ایک پرانی چابی دادا کے ہاتھ پر رکھ دی۔دادا اس چابی کو ہزاروں میں پہچان سکتے تھے۔یہ کتب خانے کی چابی تھی۔اگلے دن دادا اور حمزہ اس کمرے کی صفائی کر رہے تھے۔وہ دوسرے لوگوں کو بھی اپنی شناخت اور اپنی تاریخ سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔
چودہ سالہ حمزہ رات کو دیر تک سوچوں میں گم رہا۔وہ کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتا تھا۔وہ اس زبان کو جاننا چاہتا تھا جس میں لکھی گئی ہزاروں کتابیں،اخبار،رسالے بڑے سے گھر کے ایک بوسیدہ حصے میں بنے ہوئے کمرے میں موجود تھیں۔یہ کمرہ کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔
دوپہر میں جب گھر کے تمام افراد آرام کر رہے تھے،تب حمزہ اس کمرے میں چلا گیا۔کمرے کی چابی اسے اسٹور میں پرانی چابیوں کے گچھے سے ملی تھی۔
کمرے میں کئی الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔لکڑی کی میز پر کچھ ڈائریاں موجود تھیں۔ہر چیز پر گرد کی موٹی تہ جمی ہوئی تھی۔کمرے کی حالت سے اندازہ ہو رہا تھا کہ سال ہا سال سے یہاں کوئی نہیں آیا۔حمزہ نے وہاں سے کچھ کتابیں اُٹھا کر پڑھنے کی کوشش کی،لیکن کتابوں کی عبارت اس کی سمجھ میں نہ آئی۔
(جاری ہے)
اردو بگاڑے میں اخبار اور ٹی وی چینل برابر کے شریک رہے۔اگر یہی حال رہا تو رفتہ رفتہ ایک دن اردو زبان کا رسم الخط مکمل طور سے ختم جائے گا اور قوم رومن رسم الخط استعمال کرتے ہوئے اپنی شناخت کھو کر اپنی روشن تاریخ سے بیگانہ ہو جائے گی۔ضرورت کے تحت انگریزی ضرور سیکھو،لیکن اپنی تہذیب اور ثقافت کو ختم نہ کرو۔“
حمزہ بڑے غور سے یہ حیرت انگیز اور افسوس ناک حقائق سن رہا تھا۔
دادا کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔حمزہ بھی اپنی شناخت کھونے پر رنجیدہ تھا۔غم میں ڈوبی دادا کی باتیں سن کر اس نے عہد کر لیا کہ وہ اردو کر مرنے نہیں دے گا،کیونکہ اردو ہی ہماری پہچان ہے۔دادا نے اسے بتایا کہ وہ اردو زبان کا حقیقی خط جانتے ہیں۔حمزہ کی فرمائش پر دادا نے وعدہ کیا کہ وہ اسے اردو پڑھنا اور لکھنا سکھائیں گے۔حمزہ نے ایک پرانی چابی دادا کے ہاتھ پر رکھ دی۔دادا اس چابی کو ہزاروں میں پہچان سکتے تھے۔یہ کتب خانے کی چابی تھی۔اگلے دن دادا اور حمزہ اس کمرے کی صفائی کر رہے تھے۔وہ دوسرے لوگوں کو بھی اپنی شناخت اور اپنی تاریخ سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔
Browse More Moral Stories
مغرور طوطا
Maghroor Tota
ڈائنو سار
Dinosaur
انتقام
Intiqam
چھوٹی سی نیکی
Choti Si Naiki
جو پاوٴں پھیلاتا ہے وہ ہاتھ نہیں پھیلاتا
Ju Paoon Phelata Hai
نجومی وزیر اعظم
Najumi Wazeer
Urdu Jokes
کار ڈرائیو
car driver
جج
Judge
ایک شخص
Aik shakhs
بچہ ماں سے
Bachaa Maa se
دو چھڈو
do chadho
مالک مکان کرائے دار
Malik Makan Karaye dar
Urdu Paheliyan
گرچہ وضو کرتا نہیں دیتا ہے اذانیں
wuzu wo karta nahi deta hai azan
شب بھر وہ پانی میں نہائے
shab bhar woh pani me nahaye
ہے شرط اس میں خاموش ہونا
he sharat is me khamosh hona
دھرتی سے نکلا اک بالک
dharti se nikla ek balak
مٹھی میں وہ لاکھوں آئیں
muthi me wo lakho aye
منہ ہے چھوٹا بڑی ہے بات
munh hai chota badi hai baat
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos