Zainab Aur Australian Tota - Article No. 2482
زینب اور آسٹریلین طوطا - تحریر نمبر 2482
زینب کی کوشش سے طوطا اپنی فیملی سے مل گیا
منگل 21 مارچ 2023
آمنہ ماہم
دس سال کی زینب کو چڑیاں بہت اچھی لگتی تھیں۔اُڑتی،پھدکتی،چہچہاتی چڑیاں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتی۔آسٹریلیں اور ہرے ہرے طوطے اسے خاص طور پر اچھے لگتے تھے۔ایک بار اس نے اپنی ممی سے کہا کہ وہ طوطا پالنا چاہتی ہے لیکن ممی نے کہا کہ طوطے قید میں رہنا پسند نہیں کرتے،انہیں اپنی آزادی بہت پیاری ہوتی ہے۔گھر کے سامنے درختوں پر بہت سی چڑیاں رہتی ہیں۔خوب چوں چوں کرتی ہیں،انہیں دیکھا کرو۔زینب نے ممی کی بات مان لی اور طوطا خریدنے کی ضد چھوڑ دی۔اسکول سے آنے کے بعد بالکونی میں کھڑے ہو کر طرح طرح کی چڑیوں کو اور سامنے گھر والوں کے آسٹریلین طوطوں کو دیکھتی۔
ایک دن زینب شام کو کمرے میں آئی تو دیکھا ایک آسٹریلین طوطا اُس کے کمرے میں بیٹھا ہوا ہے۔
زینب طوطے کو کمرے میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔بھاگ کر ممی کو بلا لائی۔انہوں نے بتایا یہ شاما ہے۔بڑا میٹھا بولتا ہے اور خوب سیٹیاں بجاتا ہے،یہاں شاید بھنک کر آ گیا ہے۔چلو اسے واپس بھیج دیں،انہوں نے طوطے کو ہشکایا،تاکہ وہ دروازے سے واپس چلا جائے۔”یہ طوطا ہے یا اس کا بچہ؟“زینب نے ممی سے پوچھا۔”یہ فادر طوطا ہے“ ”تب تو اسے ضرور بھیج دیجئے۔اس کے بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔“ زینب نے کہا اور ممی کے ساتھ وہ بھی طوطے کو ہشکانے لگی۔وہ کبھی کمرے میں لگی ٹیوب لائٹ پر بیٹھتا تو کبھی پھدک کر دیوار کی گھڑی پر کبھی پنکھے کے پروں پر اور کبھی بڑی سی پینٹنگ کے فریم پر بیٹھ جاتا۔زینب اور ان کی ممی نے لاکھ کوشش کی لیکن وہ دروازے کی طرف گیا ہی نہیں۔دروازہ بالکونی پر کھلتا تھا اور وہ ادھر ہی سے آیا تھا۔
”ایسا کرتے ہیں فی الحال اسے یہی چھوڑ دیتے ہیں۔صبح اسے راستہ مل جائے گا۔“ ممی یہ کہہ کر باورچی خانے میں چلی گئیں۔”ٹھیک ہے۔آج رات یہ ہمارا مہمان رہے گا۔“ زینب خوش ہو گئی۔رات کو اُس کے پاپا گھر آئے تو انھوں نے کوشش کر کے طوطے کو پکڑا اور زینب کو چھت پر رکھا ہوا پنجرہ لانے کو کہا،زینب بھاگ کر گئی اور پنجرہ لے کر آئی اُس کے پاپا نے طوطا پنجرے میں ڈال دیا۔
تھوڑی دیر گزری تو زینب بہت پریشان ہوئی۔اُس نے پاپا سے کہا،کہ یہ خاموش ہو کر بیٹھ گیا ہے،کیا یہ بیمار ہو گیا ہے۔تو اُس کے پاپا نے بتایا نہیں یہ اپنے جن دوستوں کو چھوڑ کر آیا ہے اُن کی وجہ سے اُداس ہے۔ایک دو دن تک ٹھیک ہو جائے گا۔مگر زینب کو چین نہ آیا۔آخر اُس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ سامنے والے گھر والوں نے طوطے پال رکھے ہیں،کہیں یہ طوطا اُن کا نہ ہو،وہ پتہ کرنے اُن کے گھر گئی کہ اُن کا کوئی طوطا تو نہیں اُڑ گیا۔تو اُنھوں نے بتایا کہ صبح ایک طوطا اُڑ گیا تھا اور اب اُس کی طوطی بہت اُداس ہے تو زینب نے اُنھیں بتایا کہ اُن کا طوطا اُس کے گھر اُڑ کر آ گیا ہے،لہٰذا وہ اپنا طوطا اُن کے گھر سے لے آئیں تھوڑی دیر بعد وہ آئے اور طوطا اپنے گھر واپس چلا گیا۔اس طرح زینب کی کوشش سے طوطا اپنی فیملی سے مل گیا۔
دس سال کی زینب کو چڑیاں بہت اچھی لگتی تھیں۔اُڑتی،پھدکتی،چہچہاتی چڑیاں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتی۔آسٹریلیں اور ہرے ہرے طوطے اسے خاص طور پر اچھے لگتے تھے۔ایک بار اس نے اپنی ممی سے کہا کہ وہ طوطا پالنا چاہتی ہے لیکن ممی نے کہا کہ طوطے قید میں رہنا پسند نہیں کرتے،انہیں اپنی آزادی بہت پیاری ہوتی ہے۔گھر کے سامنے درختوں پر بہت سی چڑیاں رہتی ہیں۔خوب چوں چوں کرتی ہیں،انہیں دیکھا کرو۔زینب نے ممی کی بات مان لی اور طوطا خریدنے کی ضد چھوڑ دی۔اسکول سے آنے کے بعد بالکونی میں کھڑے ہو کر طرح طرح کی چڑیوں کو اور سامنے گھر والوں کے آسٹریلین طوطوں کو دیکھتی۔
ایک دن زینب شام کو کمرے میں آئی تو دیکھا ایک آسٹریلین طوطا اُس کے کمرے میں بیٹھا ہوا ہے۔
(جاری ہے)
چھوٹا سا گرے رنگ کا،لال لال آنکھیں،پتلی سی دم تھی۔
وہ دم لگاتار اوپر نیچے ہلا رہا تھا۔اس طوطے کو اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔زینب طوطے کو کمرے میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔بھاگ کر ممی کو بلا لائی۔انہوں نے بتایا یہ شاما ہے۔بڑا میٹھا بولتا ہے اور خوب سیٹیاں بجاتا ہے،یہاں شاید بھنک کر آ گیا ہے۔چلو اسے واپس بھیج دیں،انہوں نے طوطے کو ہشکایا،تاکہ وہ دروازے سے واپس چلا جائے۔”یہ طوطا ہے یا اس کا بچہ؟“زینب نے ممی سے پوچھا۔”یہ فادر طوطا ہے“ ”تب تو اسے ضرور بھیج دیجئے۔اس کے بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔“ زینب نے کہا اور ممی کے ساتھ وہ بھی طوطے کو ہشکانے لگی۔وہ کبھی کمرے میں لگی ٹیوب لائٹ پر بیٹھتا تو کبھی پھدک کر دیوار کی گھڑی پر کبھی پنکھے کے پروں پر اور کبھی بڑی سی پینٹنگ کے فریم پر بیٹھ جاتا۔زینب اور ان کی ممی نے لاکھ کوشش کی لیکن وہ دروازے کی طرف گیا ہی نہیں۔دروازہ بالکونی پر کھلتا تھا اور وہ ادھر ہی سے آیا تھا۔
”ایسا کرتے ہیں فی الحال اسے یہی چھوڑ دیتے ہیں۔صبح اسے راستہ مل جائے گا۔“ ممی یہ کہہ کر باورچی خانے میں چلی گئیں۔”ٹھیک ہے۔آج رات یہ ہمارا مہمان رہے گا۔“ زینب خوش ہو گئی۔رات کو اُس کے پاپا گھر آئے تو انھوں نے کوشش کر کے طوطے کو پکڑا اور زینب کو چھت پر رکھا ہوا پنجرہ لانے کو کہا،زینب بھاگ کر گئی اور پنجرہ لے کر آئی اُس کے پاپا نے طوطا پنجرے میں ڈال دیا۔
تھوڑی دیر گزری تو زینب بہت پریشان ہوئی۔اُس نے پاپا سے کہا،کہ یہ خاموش ہو کر بیٹھ گیا ہے،کیا یہ بیمار ہو گیا ہے۔تو اُس کے پاپا نے بتایا نہیں یہ اپنے جن دوستوں کو چھوڑ کر آیا ہے اُن کی وجہ سے اُداس ہے۔ایک دو دن تک ٹھیک ہو جائے گا۔مگر زینب کو چین نہ آیا۔آخر اُس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ سامنے والے گھر والوں نے طوطے پال رکھے ہیں،کہیں یہ طوطا اُن کا نہ ہو،وہ پتہ کرنے اُن کے گھر گئی کہ اُن کا کوئی طوطا تو نہیں اُڑ گیا۔تو اُنھوں نے بتایا کہ صبح ایک طوطا اُڑ گیا تھا اور اب اُس کی طوطی بہت اُداس ہے تو زینب نے اُنھیں بتایا کہ اُن کا طوطا اُس کے گھر اُڑ کر آ گیا ہے،لہٰذا وہ اپنا طوطا اُن کے گھر سے لے آئیں تھوڑی دیر بعد وہ آئے اور طوطا اپنے گھر واپس چلا گیا۔اس طرح زینب کی کوشش سے طوطا اپنی فیملی سے مل گیا۔
Browse More Moral Stories
اللہ کی شکر گزاری
ALLAH Ki Shuker Guzari
امید کی کرن
Umeed Ki Kiran
ماوٴنٹ واشنگٹن کی چوٹی
Mount Washington Ki Chotti
چڑیا کا بدلہ
Chirya Ka Badla
بھاری بستے اور ہمارے طلبہ
Bhari Baste Or Hamare Talba
لالچ بُری بلا ہے
Lalach Buri Bala Hai
Urdu Jokes
مرغی بچ گئی
murgi bach gayi
بینشن
pension
ڈیپارٹمنٹل
departmental
گدھے
gadhe
دانت تو ہیں نہیں
daant to hain nahi
تھانے میں
thanay main
Urdu Paheliyan
سب نے دیکھا ہے ان کو
sab ne dekha hai unko
گن کر دیکھا تو وہ ایک
gin kar dekha tu wo aik
ایک بہنیں اور بتیس بھائی
ek behan aur baatis bhai
یہ نہ ہو تو کوئی پرندہ
ye na ho tu koi parinda
اک حد تک تو گرمی کھائے
ek hud tak tu garmi khaye
جال کے اوپر چڑیا آئے
jaal ke opar chirya aye
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos