Asad Amanat Ali Khan

Asad Amanat Ali Khan

اسد امانت علی خان

ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت کلاسیکل موسیقی کی پہچان ہیں

پیر 8 اپریل 2024

وقار اشرف
پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ اور سروں کے بے تاج بادشاہ معروف کلاسیکل گائیک اسد امانت علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 17 برس بیت گئے مگر ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت آج بھی سماعتوں میں رس گھولتے ہیں۔انہیں موسیقی کا فن ورثے میں ملا لیکن انہوں نے اپنی شناخت الگ سے منوائی، وہ آج ہم میں نہیں مگر ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت کلاسیکل موسیقی کی پہچان ہیں۔

وہ نامور گائیک استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، اُستاد فتح علی خان اور اُستاد حامد علی خان کے بھتیجے اور شفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔25 دسمبر 1955ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے اسد امانت علی نے موسیقی کی تربیت والد استاد امانت علی خان اور دادا استاد اختر حسین خان سے حاصل کی تھی۔

(جاری ہے)

گائیکی کا آغاز 10 سال کی عمر سے کیا اور کلاسیکل موسیقی سے تعلق رکھنے والے خاندان کو چار چاند لگا دیئے۔

چچا استاد حامد علی خان کے ساتھ ان کی جوڑی نے کلاسیکی گائیکی کو ایک نئی جہت دی۔والد کی گائی غزل ”انشا جی اٹھو اب کوچ کرو“ گانے کے بعد اسد امانت علی خان کو شناخت اور مقبولیت حاصل ہوئی تاہم اصل شہرت ”عمراں لنگھیاں پباں بھار“ نے بخشی۔
انہوں نے کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت، غزلیں اور فلمی گانے گائے جو زبان زد خاص و عام ہوئے۔1974ء میں والد استاد امانت علی خان کی اچانک وفات کے بعد ان کا گایا ہوا کلام ”انشا جی اُٹھو اب کوچ کرو“ بھی بہت خوبصورتی سے گایا اس کے ساتھ ساتھ شمع محبت، سہیلی، انتخاب، شیشے کا گھر، زندگی، ابھی تو میں جوان ہوں، ترانہ، آئی لو یو اور آندھی اور طوفان جیسی فلموں کے لئے پلے بیک گلوکاری بھی کی۔
وہ بہت اچھے سوز خواں بھی تھے۔ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں 2007ء میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔وہ 8 اپریل 2007ء کو لندن میں حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے تھے اور مومن پورہ لاہور کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

Browse More Articles of Music