Masroor Anwar

Masroor Anwar

مسرور انور

لازوال گیتوں کے خالق

پیر 1 اپریل 2024

وقار اشرف
لازوال گیتوں کے خالق معروف شاعر، نغمہ نگار، اسکرپٹ رائٹر اور مکالمہ نگار مسرور انور کو دنیا سے گئے 28 برس بیت گئے۔وہ یکم اپریل 1996ء کو حرکت قلب بند ہونے کے باعث دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔بہترین گیت نگاری پر کئی نگار ایوارڈ ان کے حصے میں آئے، وفات کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں صدارتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا تھا۔
انہوں نے ہدایتکاری کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی اور کامیاب رہے تھے۔
5 جنوری 1944ء کو شملہ میں پیدا ہونے والے مسرور انور کا حقیقی نام انور علی تھا لیکن مسرور انور کے نام سے شہرت حاصل کی۔کیریئر کے آغاز میں ریڈیو پاکستان سے قاضی واجد کے ساتھ کئی ڈرامے بھی کیے۔

(جاری ہے)

1962ء میں پہلی فلم ”بنجارن“ کے گیت لکھے لیکن شہرت فلم ”ہیرا اور پتھر“ کے گانوں سے ملی۔

1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھی ان کے گیتوں نے قوم کا لہو گرمایا جن میں مہدی حسن کی آواز میں ”اپنی جاں نذر کروں“ اور ”سوہنی دھرتی“ شامل ہے۔1966ء میں ریلیز ہونے والی فلم ”ارمان“ میں ان کا لکھا ہوا ہر گیت سپرہٹ ہوا جن میں اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم بھی شامل ہے۔
”ارمان“ پاکستانی سینما کی پہلی اردو پلاٹینم جوبلی فلم تھی۔فلم ”احسان“ کا گیت ”ایک نئے موڑ پر لے آئے ہیں حالات مجھے“ بھی مقبول ہوا۔
فلم ”لاکھوں میں ایک“ کا گیت ”چلو اچھا ہوا تم بھول گئے“ فلم ”صاعقہ“ کا ”اِک ستم اور میری جاں ابھی ہے“ فلم ”عندلیب“ کا ”کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے“ اور فلم ”انجمن“ کا گیت ”اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے“ آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔فلم ”مشکل“ کا گیت”دل ہو گیا ہے تیرا دیوانہ“ بھی بہت مقبول ہوا تھا۔کوکو کورینا کے علاوہ وطن کی مٹی گواہ رہنا بھی ان کے قلم کا شاہکار ہے۔

Browse More Articles of Lollywood