Machli Ka Paigham - Article No. 987
مچھلی کا پیغام - تحریر نمبر 987
کسی بستی میں ایک ایمان دار مچھیرا علی رضا رہتا تھا ۔ اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا۔ وہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہاتھا۔ دونوں میاں بیوی کی خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنائیں ۔
بدھ 15 فروری 2017
کسی بستی میں ایک ایمان دار مچھیرا علی رضا رہتا تھا ۔ اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا۔ وہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہاتھا۔ دونوں میاں بیوی کی خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنائیں ۔
مچھیر ایک دن اپنی بیوی سے کہنے لگا : آج کل نہ جانے کیوں کم مچھلیاں جال میں پھنستی ہیں اور بعض مچھیروں کے پاس توایک بھی نہیں آپاتی ، جس کی وجہ سے ہم لوگ کافی پریشان ہیں ۔
بیوی بہت غور سے اس کی باتیں سن رہی تھی ، کہنے لگی : کوئی بات نہیں آپ پریشان نہ ہوں اس میں بھی اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوگی ۔ ویسے بھی جس کے نصیب میں جتنا رزق لکھا ہوتا ہے ، وہ اسے مل کر ہی رہتا ہے ۔ مچھیرا سوچنے لگا کہ میری بیوی کتنی صابر وشاکر ہے ۔
(جاری ہے)
دوسرے دن علی رضا گھر لوٹا تو بیوی سے کہنے لگا : ہم سب دوستوں نے دریا کے دوسرے کنارے جانے کا فیصلہ کیا ہے ۔
سب مچھیرے صبح ہی صبح روانہ ہوگئے ۔ آہستہ آہستہ روشنی پھیلنے لگی اور دن نکل آیا ۔ دن بڑا پر لطف تھا اور بادل کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا ۔ فضا بالکل صاف ستھری اور انتہائی خوش گوار تھی ۔ دریا بالکل پرسکون تھا۔ کئی مچھیرے جھوم جھوم کر گانے گارہے تھے ۔ کشتی بڑے سکون سے بہت دور تک جاپہنچی تھی ۔ کشتی میں سوار اکثر لوگوں کو ہلکی ہلکی نیند آنے لگی ، لیکن علی رضا دریا کے دونوں جانب حسین وجمیل ساحل کے مناظر سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ اچانک اس کی نظر پانی میں ایک بڑی مچھلی پرپڑی جواُچھل کر کشتی کے اندرآگری تھی ۔ اس نے جلدی سے مچھلی کو پکڑ لیا کہ کہیں وہ اُچھل کر دوبارہ دریا میں نہ جاگرے ۔ مچھلی کو پکڑنے کے لیے علی رضا دوڑا تو کشتی ہچکولے کھانے لگی ، جس کی وجہ سے باقی سب کی نیند اڑگئی اور وہ غور سے مچھلی کودیکھنے لگے ۔
ان میں سے ایک آدمی بولا : یہ مچھلی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے بھیجی ہے تو کیوں نہ ہم آگے کنارے پر اُتریں اور اسے بھون کر کھائیں ۔ یہ اتنی بڑی ہے کہ ہم سب کا پیٹ بھر جائے گا۔ سب کو اس کی بات پسند آئی۔ کشتی کا رخ کنارے کی طرف موڑ دیا۔ سب لوگ کنارے پر اُتر کر گھنے درختوں کے جھنڈ میں داخل ہوئے ،تاکہ لکڑیاں اکھٹی کرکے مچھلی بھونیں ۔
وہ لوگ گھنے درختوں کے جھنڈ میں پہنچے تو ایک خوفناک منظر نے ان سب کے رونگٹے کھڑے کردیے ۔ ایک آدمی زمین پر بے جان پڑاتھا ۔ اس کے قریب ایک تیز دھار چاقو بھی پڑا ہو اتھا ۔ پاس ہی ایک دوسرا جوان آدمی بھی تھا، جس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے اور منھ میں کپڑا ٹھونسا ہو اتھا، جس کی وجہ سے وہ بولنے اور چیخنے چلانے سے قاصر تھا۔ یہ خوفناک منظر دیکھ کر سب کے اوپر دہشت طاری ہوگئی ۔ علی رضا جلدی سے آگے بڑھا اور اس آدمی کی رسی کھول اور اس کے منھ سے کپڑا نکالا۔ وہ بہت ڈرا ہوا لگ رہا تھا اور نااُمیدی کی کیفیت میں تھا۔ اس پھندے سے آزادی کے بعد وہ بولا ؛ مہربانی کرکے مجھے تھوڑا پانی پلادو ۔
علی رضا نے اسے جلدی سے پانی پلایا۔ جب وہ پانی پی چکا تو مرے ہوئے آدمی کی طرف اشارہ کرکے خود ہی کہنے لگا : میں اور یہ آدمی دونوں ایک قافلے میں تھے جو کہ تجارت کے لیے ایک دور درازعلاقے کی طرف جارہے تھے ۔ یہ آدمی میرے ہی شہر کا تھا، وہ سمجھ گیا کہ میرے پاس کافی مال ہے ۔ اس نے مجھ سے دوستی کرلی اور پیار محبت سے میرے آس پاس رہنے لگا۔ بہت ہی کم میرا ساتھ چھوڑتا ۔ میرا بھی اس پر کافی اعتماد قائم ہوگیا تھا۔ قافلے نے سستانے کی غرض سے ساحل پر پڑاؤڈالا، رات کے آخری پہر قافلہ روانہ ہوگیا ، لیکن میں اور یہ آدمی یہیں رہ گئے ، کیوں کہ اس نے قافلے سے دور لے جا رک کوئی شربت پلا دیا تھا جس سے مجھے نیند آگئی ۔ قافلے کی روانگی کے بعد اس نے میری نیند کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مجھے رسی سے باندھ دیااور اس نے میرے منھ میں کپڑا ٹھونس دیا کہ میں چیخ وپکار نہ کرسکوں۔ اس نے میرے پاس جوکچھ مال تھا وہ چھین لیا اور مجھے زمین پر ٹپخ دیا۔ پھرمجھے قتل کرنے کے لیے میرے سینے پر بیٹھ کر کہنے لگا : اگر میں تجھے زندہ چھوڑدوں اور کسی طرح توآزاد ہوجائے تو مجھے بدنام کرسکتا ہے ، اس لیے تجھے قتل کرنا ضروری ہے ۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی کمر بند سے بندھی ہوئی یہ تیز دھار چھری کھینچنی چاہی ، لیکن چھری کسی وجہ سے اٹک گئی تھی۔ اس نے بڑی کوشش کی جب ناکام ہوگیا تو اس نے پوری طاقت لگا کر چھری کمر بندے سے کھینچی اس کی دھاراوپر کی برف تھی ، چھری اچانک زور سے نکلی اور کھال کے ساتھ شہ رگ کو کاٹتی ہوئی گردن میں پیوست ہوگئی ۔ شہ رگ کے کٹتے ہی خون کافوارہ جاری ہوگیا اور جب طاقت نے جواب دیا تو یہ مردہ حالت میں زمین پر ڈھیر ہوگیا۔ یہ بدبخت میری آنکھوں کے سامنے اپنے انجام تک پہنچ گیا ، لیکن اس کے باوجود مجھے اپنی موت کایقین ہوچلا تھا، کیوں کہ ہم جس جگہ ہیں ، بہت ہی کم لوگ یہاں سے گزرتے ہیں ۔ میں سوچ رہاتھا کہ کون میرے ہاتھ پاؤں کھولے گا؟ کون مجھے اس آفت سے نجات دلائے گا؟ پھر میں نے اللہ کوپکارنا شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو میری طرف بھیج دیا اور میری جان بچ گئی۔ تم لوگوں کا اس طرف کیسے آنا ہوا ؟
علی رضا نے اسے بتانا شروع کیا : ایک مچھلی ہماری کشتی میں سمندر سے اُچھل کر آگری تھی ۔ ہم لوگ اس مچھلی کو بھوننے کی غرض سے اس جگہ پہنچے تھے ۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا ۔
تم لوگوں کا بہت شکریہ ، لیکن میں اپنی خوشی سے آپ لوگوں کو کچھ دینا چاہتا ہوں ۔ براہ مہربانی انکار نہ کیجیے گا۔ پھر وہ شخص اُٹھا اور اپنے سامان سے اشرفیوں کی تھیلیاں نکالنے لگا۔ اس نے ان سب دوستوں کو ایک ایک تھیلی بطور انعام دی ۔ اس شخص نے خاص طور پر علی رضا کا شکریہ ادا کیا ۔
وہ لوگ جب اس شخص کو ساتھ لے کر کشتی کے پاس واپس آئے تو دیکھا کہ مچھلی کشتی سے کود کر سمندر میں جاچکی تھی ۔
Browse More Moral Stories
ایمانداری کا صلہ
Imandari Ka Sila
پہلی چوری
Pehli Chori
شناخت
Shanakht
قدیم جاپانی فنون
Qadeem Japani Funoon
عاصم کی کہانی
Asim Ki Kahani
چڑیاکی تین نصیحتیں (حکایت رومی)
Chirya Ki 3 Naseehatain
Urdu Jokes
آرٹسٹ اور گاہک
artist aur gahak
مولوی صاحب
Moulvi sahib
بھکاری
bhikari
تنقید
Tanqeed
سکول ٹیچر
School teacher
مجھے پیسے کی کیا پرواہ
mujhe paise ki kya parwah
Urdu Paheliyan
شوں شوں کرتی نار اک نکلی
sho sho karti naar ek nikli
بند آنکھوں نے جو دکھلایا
band ankhon ne jo dikhlaya
مفت کسی کا ہاتھ نہ آیا
muft kisi ke hath na aaya
تیز یا ہلکی چال دکھا کر
tez ya halki chaal dikha kar
سورج کے جانے پر تین
sooraj ke jane per teen
توڑ کے اک چاندی کو کوٹھا
tour ke ek chandi ka kotha