Christopher Columbus 1451 To 1506 - Article No. 942

Christopher Columbus 1451 To 1506

کرسٹو فرکولمبس1506ء۔1451ء - تحریر نمبر 942

کولمبس نے پورپ سے مشرق کی طرف بحری راستہ کھو جتے ہوئے ‘ بے دھیانی سمت ہی امریکہ کو دریافت کرلیا۔ اس دریافت نے اس کے اپنے اندازوں کی نسبت کہیں زیادہ سدت سے تاریخ عالم پر اپنے اثرات چھوڑے۔۔۔

جمعرات 20 اگست 2015

کولمبس نے پورپ سے مشرق کی طرف بحری راستہ کھو جتے ہوئے ‘ بے دھیانی سمت ہی امریکہ کو دریافت کرلیا۔ اس دریافت نے اس کے اپنے اندازوں کی نسبت کہیں زیادہ سدت سے تاریخ عالم پر اپنے اثرات چھوڑے ۔ اس کی دریافت نے نئی دنیا میں سیاحت اور کالونیاں قائم کرنے کے دور کا آغاز کیا ۔ یہ واقعہ تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوا ۔ اس نے یورپ کے لیے اپنی بڑھتی آبادی کی کھپت کے لیے دوبراعظموں کے درواکیے ۔
اور انہیں معدنیاتی دولت اور خام مواد کے ذخائر مہیا کیے ‘ جنہوں نے یورپ کی معاشیات کو بدل کر رکھ دیا ۔ اس دریافت نے امریکی ہندوستانیوں کی تہذیب کو بھی پامال کیا ۔ مجموعی طور پر اس نے مغربی کرے میں اقوام کا ایک نیا مجموعہ تشکیل دیا ‘ جوان ہندوستانی اقوام سے خاصا مختلف تھا جوان علاقوں میں پہلے رہائش پذیر تھیں اور دنیائے قدیم کی اقوام پرجن کے بڑے اثرات تھے ۔

(جاری ہے)


کولمبس کی کہانی کے بنیادی اجزاء سے متعلق ہمیں معلومات حاصل نہیں ہیں ۔ وہ اٹلی میں جینوا میں 1451ء میں پیدا ہوا ۔ جوان ہونے پر وہ ایک جہاز کاکپتان اور ایک کہنہ مشق ملاح بن گیا ۔ اس کا خیال تھا کہ بحراوقیانوس میں مغرب کی سمت سفر کرنے سے مشرقی ایشیا تک بحری راستہ دریافت کیا جاسکتا ہے۔ اس نے بڑی شدومد سے اپنے اس خیال کو صراحت سے سمجھانے کی کوشش کی ۔
علی الاخر کاسٹائل کی ملکہ ازیبلا اول اس کے اس مہماتی سفر کے لیے مالی امداد پر رضا مند ہوگئی ۔
13اگست 1492ء میں اس کے جہاز سپین سے روانہ ہوئے ۔ ان کا پہلا قیام افریقہ کے ساحل ہر کیزی جزیروں پر ہوا ۔ 6ستمبر کو وہ کیزی جزیروں سے مغرب کی سمت چل دیے ۔ یہ طویل سفر تھا ۔ ملاح خوفزدہ اور واپسی پر اصرار کرنے لگے ۔ صرف کولمبس سفر جاری رکھنے پر مصر تھا ۔
12اکتوبر 1492ء کو خشکی دکھائی دی ۔
اگلے برس مارچ میں کولمبس سپین واپس گیا ۔ فتح مندمہم جوکابڑے طمطراق سے سواگت کیا گیا ۔ اس نے جاپان یاچین تک پہنچنے کے سیدھے بحری راستے کی بے ثمرخواہش میں بحراوقیانوس میں تین مزید سفر کیے ۔ کولمبس اپنے اس خیال پر مصر تھا کہ اس نے مشرقی ایشیا کا بحری راستہ کھوج لیا تھا جبکہ طویل عرصہ تک بیشتر لوگوں نے اس کا یقین نہ کیا ۔

ازیبلا نے کولمبس سے وعدہ کیا کہ و ہ جس جزیرے کو دریافت کرے گا ‘ اسے اس کا گورنربنا دیا جائے گا ۔ لیکن وہ بطور منتظم اعلیٰ اس درجہ نااہل ثابت ہوا کہ بالاخراسے سبکدوش کردیا گیا ۔ وہ پابہ سلاسل واپس سپین پہنچا ۔ جہاں فوراََ ہی اسے آزادی تومل گئی لیکن بعدازاں اسے کبھی کوئی انتظامی عہدہ نہ ملا ۔ یہ عام افواہ کہ وہ کسمپری کی حالت میں چل بسا ‘ بے بنیاد ہے۔
1506ء میں اپنی موت کے وقت وہ خاصا دولت مند تھا ۔
کولمبس کے پہلے سفر نے واضح طور پر یورپی تاریخ پر انقلاب انگیز اثرات مرتب کیے اور ان سے کہیں زیادہ گہرے امریکہ پر ۔ 1492ء کی تاریخ تو ہر سکول کے طالب علم کو یاد ہوگی ۔ تاہم اس کے باوجود کولمبس کو اس فہرست میں ایسا ممتاز درجہ دینے کے فیصلہ کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے ۔
ایک اعتراض تو یہ کیا جاسکتا ہے کہ کولمبس پہلا یورپی نہیں تھا جس نے اس نئی دنیا کو دریافت کیا ۔
ایک واٹکنگ ملاح لیف ابرکسن اس سے کئی صدیاں قبل امریکہ پہنچا ۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس واٹکنگ ملاح اور کولمبس کی درمیانی مدت میں متعدد مہم جو ملاحوں نے بحراوقیانوس کو عبور کیا ۔ تاریخی اعتبار سے لیف ایرکسن ایک غیر اہم شخصیت تھی ۔ ا س کی دریافتوں کا احوال کبھی عام نہیں ہوا ۔ نہ ہی یہ امریکہ یایورپ میں کسی نوع کی تبدیلیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہوئیں ۔
دوسری جاب کولمبس کی دریافت کے قصص دریافتوں کے براہ راست نتیجے کے طورپر اس کی واپسی کے بعد چند ہی برسوں میں اور اس کی ہوئیں اور ان نئے علاقوں کی فتوحات اور کالونیوں کی آباد کاری کا سلسلہ جاری ہوا ۔
اس کتاب کی دیگر شخصیات کی مانند کولمبس کے بارے میں بھی یہ رائے دی جاسکتی ہے کہ اگر یہ نہ ہوتا تو اس کی دریافتیں ضرور وقوع پذیر ہوجاتیں ۔
پندرہویں صدی عیسوی کایورپ تویوں بھی شدید جوش وجذبہ کی لپیٹ میں تھا۔ تجارت بڑے رہی تھی ‘ سو ایسی سیاحتی مہمات ناگزیر تھیں ۔ درحقیقت پر تگیزی کولمبس سے بہت پہلے ” انڈیز “ تک بحری راستوں کی کھوج میں معر کے مارچکے تھے ۔
یہ امرقرین قیاس ہے کہ امریکہ کو جلد یابدیریورپی ملاح دریافت کرہی لیتے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں زیادہ دیرنہ لگتی ۔
لیکن امریکہ 1492ء میں کولمبس کی بجائے مثال کے طور پر 1510ء میں کسی فرانسیسی یاانگریز مہماتی ملاحوں کے ہاتھوں دریافت ہوتا ‘ تو اس کے بعد جوترقی ہوئی ہے ۔ اس کی نوعیت مختلف ہوتی ۔ ہردوصورتوں میں کولمبس ہی بہرطور وہ شخص ہے جس نے امریکہ کو دریافت کیا ۔
ایک تیسرا ممکنہ اعتراض یوں ہوسکتا ہے کہ کولمبس کے سفر سے پہلے پندرہویں صدی کے متعددیورپی ملاح اس حقیقت سے باخبر تھے کہ دنیا گول ہے ۔
یہ نظریہ کئی صدیاں قبل یونانی فلاسفہ نے پیش کیا تھا ۔ جبکہ اس مفروضہ کی ارسطو کے ہاں قبولیت کے بعد 1400ء کے تعلیم یافتہ یورپء افراد کے لیے اس سے مفرممکن نہیں رہا تھا ۔ تاہم کولمبس کی وجہ سہرت اس کازمین کے گول ہونے کا مفروضہ پیش کرنا ہرگز نہیں ہے ۔ (امرواقع یہ ہے کہ اس نے تو ایسا ثابت کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ) ۔ اس کی مقبولیت کاسبب اس نئی دنیا کو دریافت کرنا ہے ‘ جبکہ نہ ارسطو کو اور نہ ہی پندرہویں صدی کے یورپی اہل علم کو اس بات کا علم تھا کہ امریکہ کا کہیں وجود ہے ۔

شخصی اعتبار سے کولمبس کے اوصاف کچھ قابل ستائش نہیں تھے ۔ وہ غیر معمولی طور پر حریص تھا ۔ دراصل اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کولمبس کو ازیبلا سے مالی معاونت کے حصول کے لیے دشواری اس لیے پیش آئی کیونکہ اس کی شرائط بہت کڑی تھیں ۔ ہرچند کہ اسے آج کے اخلاقی معیارات درست نہ ہوگا ‘ لیکن یہ سچ ہے کہ وہاں مقامی باشندوں سے اس کا رویہ نہایت سفاکانہ تھا ۔ہماری فہرست دنیا کے نفیس ترین لوگوں کی فہرست تو کسی طور بھی نہیں ہے ‘ اس کی بجائے یہ موثر ترین لوگوں کا اکٹھ ہے ‘ جبکہ اس معیار ہر رکھا جائے تو کولمبس کو اس فہرست میں بہرحال ایک نمایاں درجہ ہی ملنا چاہیے تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles