Homer - Article No. 986

Homer

ہومر (قریب8قبل مسیح) - تحریر نمبر 986

کئی صدیوں تک ہومر کی نظموں کے اصل مصنف کامسئلہ زیربحث ہے۔ یعنی یہ کہ کب ‘ کہاں ُ کیسے یہ نظمیں ایلیڈاور اویڈیسی لکھی گئی ہیں؟

بدھ 25 نومبر 2015

کئی صدیوں تک ہومر کی نظموں کے اصل مصنف کامسئلہ زیربحث ہے۔ یعنی یہ کہ کب ‘ کہاں ُ کیسے یہ نظمیں ایلیڈاور اویڈیسی لکھی گئی ہیں؟ کس حدتک ان کاانحصار پہلے سے موجود مختصر نظموں پر رہا؟ کیا ایلیڈاور اوڈیسی کسی ایک ہی شخص نے لکھی؟ یا دو افراد نے ایک ایک نظم لکھی؟ ہوسکتاہے کہ ہومرنام کاکوئی شخص نہ ہو؟ اور یہ کہ دونوں نظمیں آہستہ روی سے متشکل ہوئی ہوں یا پھر مختلف شاعروں کی متعدد نظموں کوملاکریہ دو نظمیں بنی ہوں؟ علما نے سالہا سال ان مسائل پر تحقیق کی ہے اور باہم متفق نہیں ہیں۔
آخر ایک شخص جو کلاسیکی ادب کاعالم نہیں ہے‘ کیسے یہ جان سکتا ہے کہ ان سوالات کے کیا جوابات ہیں۔ میں خود بھی ان کے جوابات سے آگاہ نہیں ہوں۔ تاہم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ اس فہرست میں ہومر کادرجہ کیاہونا چاہیے‘ میں نے درج ذیل مفروضات قائم کیے ہیں۔

(جاری ہے)


پہلا مفروضہ یہ ہے کہ واقعتا ایلیڈکااصل مصنف ایک ہی ہے۔ (صاف طور پر یہ بات اس مفروضے سے بدرجہابہتر ہے کہ ایک مجلس شعراء کوفرض کیاجائے)۔

ہومر سے پہلے ایک ہی موضوع پر متعدد مختصر نظمیں لکھی جنہیں مختلف یونانی شعراء نے تحریر کیا۔ ہومر نے ان کے کام سے بہت کچھ مستعار لیا۔ لیکن ہومر نے ایلیڈ کومتشکل کرنے کے لیے فقط پہلے سے موجود نظموں کی مجتمع ہی نہیں کیا۔ اس نے ان کاانتخاب انتظام وانصران کیا‘ انہیں دوبارہ لکھا اور ان میں اضافے کیے اور آخری صورت دیتے ہوئے اس نظم میں اپنانایاب جوہرداخل کردیا۔
جس ہومر نے یہ ادبی شہ پارہ تخلیق کیا‘ وہ اغلباََ آٹھویں صدی قبل مسیح میں موجود تھا‘ حالانکہ اس حوالے سے متعدد دیگر تواریخ جوعموماََ قدیم ہیں‘ تجویز کی گئی ہیں۔ میں نے یہ مفروضہ بھی قائم کیاہے کہ یہی شخص اوڈیسی کابھی مصنف ہے۔ اگرچہ یہ دلیل دی گئی (جودونوں کے اسلوبیاتی اختلاف پرمبنی ہے) کہ دونوں نظمیں دومختلف افراد نے تخلیق کیں‘ یہ دلیل باوزن ہے مجموعی طور پر اس دونوں نظموں میں موجود مماثلتیں ان کے اختلاف سے بہت کم ہیں۔

موجودہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں ہومر کے متعلق بہت کم معلومات حاصل ہیں۔ بلاشبہ اس سے متعلق سوانحی کوائف موجودنہیں ہیں۔ ایک مضبوط قدیم حکایت کے مطابق جس کاتعلق قدیم یونان سے ہے‘ ہومراندھا تھا۔ تاہم ان دونوں نظموں میں موجود حیران کن بصری تخیلات ظاہر کرتے ہیں کہ اگرچہ ہومراندھاتھا لیکن وہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ نظموں کی زبان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہومر کاتعلق ”آیونیا“ سے تھا۔
یہ ایجین سمندر کے مشرقی ساحل پر واقعہ ایک علاقہ ہے۔
اگرچہ یہ ماننا دشوار ہے‘ کہ ایسی طویل اور محتاط انداز میں مرتب کی گئی نظمیں لکھے بغیر تخلیق ہوسکتی ہیں۔ تاہم بیشتر علماء اس امرپر متفق ہیں کہ وہ بنیادی طور پر اور غالباََ مکمل طور پر زبانی طور پر تخلیق ہوئی۔ یہ بات البتہ معلوم نہیں ہے کہ پہلی باریہ نظمیں کب ضابطہ تحریر میں لائی گئیں۔
اس کی طوالت کے پیش نظر (یہ قریب اٹھائیس ہزار اشعار پر مشتمل ہیں) یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ ان کی حقیقی تخلیق کے تھوڑا ہی عرصہ بعد مناسب درستی کے ساتھ دوسرے کومنتقل کیاجانا ممکن تھا۔س بہرکیف چھٹی صدی قبل مسیح تک یہ دونوں نظمیں عظیم کلاسیکی ادب میں شمار کی جانے لگی تھیں جبکہ ہومر کے متعلق سوانحی کوائف کھو چکے تھے۔ بعدازاں یونانیوں نے اوڈیسی اور ایلیڈکو اپنی قوم کاعظیم ادبی شبہ پارہ قراردیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ تمام درمیانی صدیوں میں اور ان تمام ادب تبدیلیوں کے باوجود جوبعد کے ادب میں ظاہر ہوئیں ہومر کی مقبولیت میں فرق نہ آیا۔ ہومر کی عظیم مقبولیت اور وقعت کے پیش نظر میں نے یقدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ اس کی اس فہرست میں درجہ بندی کی ہے۔ میں نے ایسا اسی وجہ کے بناپر کیا جس بنیاد پر میں نے دیگر ادبی اور فن کارشخصیات کونسبتاََ کم تر درجہ دیاہے۔
ہومر کے معاملے میں اس کی ساکھ اور اثرات کے بیچ امتیاز خاص طور پر وسیع ہے۔ اگرچہ اس کی نظموں کوسکولوں میں اکثر پڑھاجا تا ہے۔ آج کی دنیا میں نسبتاََ کم لوگ ہی سکول یاکالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسے دوبارہ پڑھنے کی خواہش محسوس کرتے ہیں۔ شیکسپیئر سے‘ جس کی نظمیں اور ڈرامے پڑھے اور ڈراموں کواکثر وبیشتر سٹیج پر کھیلا جاتا ہے ہومر کاموازنہ دلچسپ ہے۔

ہومر کی ویسی مقبولیت حاصل نہیں رہی۔اگرچہ ہومر کے مقولے بارلٹ کی تحریروں میں بکثرت موجود ہیں‘لیکن آج عام بول چال میں شاذ ہی وہ سننے میں آتے ہیں۔یہ شیکسپیئر کے حوالے سے ایک اہم نقطہ ہے‘ اور یہاں اس کاموازنہ بنجمن فرینکلن اور عمر خیام جیسے مصنّفین سے بھی بنتا ہے ۔ اس کاایک مقبول عام فقرہ یہ ہے ” ایک پینی“ پس انداز کرنے کامطلب ہے کہ ایک ”پینی“ کی آمدنی ہوئی۔
اس کے انسانی کردار اورسیاسی رویوں اور فیصلوں پر اثرات پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہومر کاکوئی مصرع آج مقبول نہیں ہے۔
توپھر ہومر کی اس کتاب میں لیا ہی کیوں گیا ہے؟ اس کی دووجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد جو ان صدیوں میں بڑھتی رہی‘ بہت زیادہ ہے جنہوں نے ہومرکی نظموں کوپڑھایاسنا ہے۔ دنیائے قدیم میں آج کی نسبت ہومر کی نظمیں کہیں زیادہ مقبول تھیں۔
یونان میں عوام الناس بھی اس کی تحریروں سے واقف تھی۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ مذہبی اور اخلاقی رویوں کومتاثر کیا۔ اوڈیسی اور ایلیڈ ادبی دانشوروں میں ہی نہیں بلکہ فوجی اور سیاسی رہنماؤں میں مقبول تھیں۔ متعدد قدیم رومی قائدین نے ہومر کے حوالے دیئے سکندراعظم تو ایلیڈ کی ایک جلد مہمات کے دوران اپنے پاس رکھتا تھا۔ آج بھی چند لوگ ہومر کوپسند کرتے ہیں جبکہ ہم میں سے بیشتر نے اس کی تحریروں کوسکول کے زمانے میں پڑھاتھا۔

لیکن اس سے زیادہ اہم بات ہومر کے ادب پر اثرات ہیں‘تمام کلاسیکی یونانی شاعر اور ڈرامہ نگار ہومر سے بہت متاثر تھے۔ سوفوکلینر‘ یوریپائیڈس اور ارسطو (یہ فقط چندنام ہیں) ہومر کی روایت ہی کے آدمی تھے۔ سبھی نے ادبی وقار کے اپنے نظریات ہومر ہی سے اخذکیے ہیں۔
ہومر کے قدیم رومی مصنّفین پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ سبھی نے اس کی شاعری کوعظمت کامعیار قراردیا۔
مصنّفین میں سے عظیم ترین ورجل نے اپناشہ پارہ ”Aeneid“ تحریر کیا تو اس نے ایلیڈ اور اوڈیسی کے نمونہ پراسے ترتیب دیا۔
حتیٰ کہ جدید دورمیں بھی تمام اہم مصنّفین یاتوہومر سے متاثر رہے یاورجل یاسوفوکلینر جیسے مصنّفین کے اثرتلے رہے‘ جو خود ہومر سے متاثر تھے۔ تاریخ میں کسی دوسرے مصنف کے اثرات اس قدر دوررس اور ہمہ گیر نہیں ہیں۔

آخری بات غالباََ سب سے اہم ہے ۔یہ ممکن ہے کہ گزشتہ سوبرسوں میں ہومر کی نسبت ٹالسٹائی کوزیادہ کثرت سے پڑھا گیا ہو‘ لیکن پچھلی چھبیس صدیوں میں ٹالسٹائی کے اثرات ناپید تھے‘ جبکہ ہومر کے اثرات کی عمر تو دوہزار سات سوسال سے بھی زیادہ ہے۔ یہ واقعی ایک طویل مدت ہے۔ اس مثال کاثانی ہمیں دیگر ادبی شخصیات یاکسی بھی انسانی کاوش کے میدان میں کسی شخصیت میں دکھائی نہیں دیتا۔

Browse More Urdu Literature Articles