Laozi - Article No. 926
لاؤ تسو ( چوتھی صدی قبل مسیح ) - تحریر نمبر 926
ان ہزار ہا کتابوں میں جو چین میں لکھی گئیں ‘ ایک ایسی بھی ہے جس کے سب سے زیادہ تراجم ہوئے اور جو ملک سے باہر بھی بہت پڑھی گئی۔
جمعرات 6 اگست 2015
ان ہزار ہا کتابوں میں جو چین میں لکھی گئیں ‘ ایک ایسی بھی ہے جس کے سب سے زیادہ تراجم ہوئے اور جو ملک سے باہر بھی بہت پڑھی گئی ۔ یہ قریب دوہزار سال قبل لکھی گئی اور راؤ تسویا ”تاؤتی چنگ “ کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ یہ تاؤ مت کے فلسفہ کے حوالے سے ایک بنیادی کتاب مانی جاتی ہے ۔
یہ ایک پیچیدہ کتاب ہے ‘ اسے ایک غیر معمولی پرا سرار انداز میں لکھا گیا اور اس کی متعدد تشریحات کی جاسکتی ہیں ۔ تاؤمت کے بنیادی تصور ” تاؤ “ کا عموماََ ” راستہ “ کے طور پر ترجمعہ کیا جاتا ہے۔تاہم یہ تصور کسی قدر مبہم ہے جبکہ “ تاوٴتی چنگ “ کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے “ وہ تاؤ “ جیسے بیان کیا جاسکتا ہے ‘ مرکزی ” تاؤ “ نہیں ہے جس کا نام کو دھرایا جاسکتا ہے ‘ وہ ابدی نام نہیں ہوسکتا “۔
تاؤمت یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ انسان کو ” تاؤ “ کے خلاف عمل نہیں کرنا چاہیے ۔ بلکہ اس کی اطاعت کرنی اور اس سے ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے ۔ یعنی طاقت کے حصول کی فعال کاوش یا اس کا اطلاق نہیں ہے جتنا احمقانہ اور بے کار ۔ ” تاؤ “ کومات نہیں دی جاسکتی ۔ اس سے موافقت پیدا کرنے میں ہی انسان کی بھلائی ہے ۔ ( تاؤمت کا پیرو کاریہ کہے گا کہ پانی جو لامحدود طور پر نرم ہے ‘ جوبلا احتجاج نشیب میں بہتا ہے اور کمزور ترین قوت کا بھی بلامزاحمت ردعمل پیش کرتا ہے ۔ سویہ ناقابل فنا ہے ۔ جبکہ مضبوط ترین چٹانیں بھی سیل وقت کے آگے بے بس ہیں ) ۔
ایک انسان کے لیے سادگی اور فطری پن قابل ترجیح ہے ۔ تشدد سے اجتناب کرنا چاہیے ‘ اور دولت اور مرتبت کے حصول کی کاوش ناجائز ہے ‘ دنیا کی اصلاح کی کوشش بے کار ہے ‘ بلکہ اس کی قدر کی جانی چاہیے ۔ حکومتوں کے لیے ایک غیر عمل پذیر حکمت عملی بہترین حکمت عملی ہے ۔ متعدد آئین پہلے سے موجود ہیں ۔ مزید قانون وضع کرنا یا پرانے قوانین کو سخت بنانا ‘ عموماََ معاملے کو بدترین بنا دینے کے مترادف ہے ۔ زیادہ خصولات ‘ حکومتی پر جوش منصوبے اور جنگیں ‘ یہ سب کچھ تاؤمت فلسفہ کی روح کے منافی ہے ۔
چینی روایت کے مطابق ” تاؤتی چنگ “ کا مصنف راؤتسو تھا ۔ جو غالباََ کنفیوشس کا کہن سال ہم عصر تھا ۔ کنفیوشس چھٹی صدی قبل مسیح میں پیدا ہوا ۔ اس کے اسلوب اور موضوع کے پیش نظر چند جدید ماہرین کا خیال ہے کہ ” تاؤتی چنگ “ اسی دور میں لکھی گئی ۔ کتاب کی تصنیف کے اصلی دور کے متعلق علماء میں اختلاف رائے موجود ہے ۔ ” تاؤتی چنگ “ میں کسی خاص شخص ‘ مقام ‘ تاریخی یا تاریخی واقعہ کا ذکر موجود نہیں ہے ) تاہم 320قبل مسیح اس حوالے سے درست اندازہ ہے ۔ اغلباََ اصل تاریخ سے اسی برس کم یا زیادہ ہوسکتے ہیں ۔
اس مسئلہ نے تاریخ اور حتیٰ کہ خود لاؤتسو کے وجود کے متعلق شکوک وشبات پیدا کیے ہیں ۔ چند ماہرین اس روایت کو مانتے ہیں کہ لاؤتسو چھٹی صدی قبل مسیح میں موجود تھا ۔ وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس نے ” تاؤتی چنگ “ کو تحریر نہیں کیا ۔ دیگر علماء کا خیال ہے کہ وہ شخص ایک فرضی کردار ہے ۔ میرے نقطہ نظر سے چند علماء ہی متفق ہیں ‘ میرے مطابق (1) لاؤتسو ایک حقیقی انسان تھا ‘ اور وہی ” تاؤتی چنگ “ کا مصنف تھا ( 2) وہ چوتھی قبل مسیح میں پیدا ہوا ‘ اور (3) روایت لاؤتسو کنفیوشس کا عمر رسیدہ ہم عصر تھا۔ فرضی ہے ‘ جسے بعد کے تاؤفلاسفہ نے کتاب کے مصنف کو تکریم دینے کی غرض سے اختراع کیا ۔
یہ بات اہم ہے کہ قدیم چینی مصنّفین جیسے کنفیوشس ( قبل مسیح 479۔551) ماؤتی ( پانچویں صدی قبل مسیح ) مینی یس ( قبل مسیح 289۔371) وغیرہ نے لاؤتسویا ” تاؤتی چنگ “ کا کہیں کوئی ذکر نہیں کیا ۔ تاہم چوانگ تسونے ‘ جو 300قبل مسیح کا ایک اہم تاؤ فلسفی تھا ‘ لاؤتسو کا بار بار ذکر کیا ہے ۔
جبکہ خود لاؤتسو کا پنا وجود ہی متنازعہ فیہ ہے ۔ ہم اس کے موجود سوانحی کوا ئف پر بھی اعتماد نہیں کرسکتے لیکن اس حوالے سے معتبر حوالے موجود ہیں کہ لاؤتسو شمالی چین میں پیدا اور فوت ہوا ‘ اپنی زندگی کا ایک حصہ اس نے ایک مورخ یا سرکاری عجاب خانہ کے مہتم کی حیثیت سے گزارہ ‘ اغلباََ وہ چاؤ شاہی خاندان کے دارلخلافہ ” لوینگ “ میں رہا ۔ لاؤتسو اس کا اصل نام نہیں تھا ۔ بلکہ یہ ایک خطاب تھا جس کا مطلب قدیم استاد “ ہے ۔ اس کی شادی بھی ہوئی اور ایک بیٹا ” لاؤتسونگ “ تھا ‘ تسونگ ” وی “ (Wei) نامی ایک ریاست میں سپہ سالاربنا ۔
اگرچہ تاؤمت بنیادی طور پر ایک بے دین فلسفہ ہے ۔ تاہم اس میں سے ایک مذہبی تحریک جنم پذیر ہوئی ۔ تاؤمت کا فلسفہ بنیادی طور پر” تاؤتی چنگ “ میں بیان کردہ تصورات پر مشتمل ہے ۔ تاؤمت جلد ہی متعدد تو ہمات اور عبادت سے آلودہ ہوگیا ‘ جن کا لاؤتسو کے افکار سے کوئی تعلق نہ تھا ۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ لاؤتسوہی ” تاؤتی چنگ “ کا اصل مصنف تھا ‘ تو پھر ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اس کی اثرات دیرپاتھے ۔ کتاب بہت مختصر ہے ( یہ چھ ہزار چینی الفاظ سے بھی کم پر مشتمل ہے ۔ سویہ ایک اخبار کے واحد صفحے پر ہی پوری آسکتی ہے ) لیکن اس میں سوچ کو ترغیب دینے کی بڑی طاقت موجود ہے ۔ تاؤفلاسفہ کے ایک بڑے گروہ نے اپنے تصورات کی تشکیل کے لیے اس کتاب کو نقطہ آغاز تصور کر کے پڑھا ۔
مغرب میں ” تاؤتی چنگ “ کنفیوشس کی تحریروں ‘ اس کے کسی پیرو کارفلسفی سے زیادہ معروف ہے۔ درحقیقت اس کتاب کے چالیس سے زائد تراجم انگریزی میں ہوئے ہیں ۔ بائبل کے علاوہ کوئی دوسری کتاب اس تعداد میں ترجمعہ نہیں ہوئی ۔
خود چین میں کنفیوشس مت عمومی طور پر ایک ممتاز فلسفہ رہا ‘ اور جس معاملے میں لاؤ تسو اور کنفیوشس کے افکار میں تضاد پیدا ہوتا ہے ۔ چینی عموماََ موخرالذ کر کی ہی پیروی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ تاہم کنفیوشس مت کے پیروکار لاؤتسو کو بڑی عزت کا درجہ دیتے ہیں ۔ کئی ایک مثالوں میں تاؤمت کے افکار کو بڑی سہولت سے کنفیوشس کے فلسفہ میں مدغم کردیا گیا ۔ سواس طور اس نے ہزاروں ان لوگوں کو بھی متاثر کیا ‘ جوخود کو تاؤمت کا پیروکار قرار نہیں دیتے ۔ اسی طور تاؤمت کا بدھ مت کے فلسفہ کے چینی ارتقاء میں بھی بڑا عمل دخل ہے ۔ خاص طور پر ” زین “ بدھ مت ہیں ۔ اگرچہ چند لوگ آج بھی خود کو تتاؤمت کے پیروکار قرار دیتے ہیں ۔ تاہم چینی فلاسفہ میں کنفیوشس ہی ایک ایسا فلسفی ہے جس نے انسانیت پر لاؤتسو کی حد تک گہرے اثرات مرتب کیے۔
یہ ایک پیچیدہ کتاب ہے ‘ اسے ایک غیر معمولی پرا سرار انداز میں لکھا گیا اور اس کی متعدد تشریحات کی جاسکتی ہیں ۔ تاؤمت کے بنیادی تصور ” تاؤ “ کا عموماََ ” راستہ “ کے طور پر ترجمعہ کیا جاتا ہے۔تاہم یہ تصور کسی قدر مبہم ہے جبکہ “ تاوٴتی چنگ “ کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے “ وہ تاؤ “ جیسے بیان کیا جاسکتا ہے ‘ مرکزی ” تاؤ “ نہیں ہے جس کا نام کو دھرایا جاسکتا ہے ‘ وہ ابدی نام نہیں ہوسکتا “۔
(جاری ہے)
تاہم ہم کہہ سکتے ہیں کہ ” تاؤ “ کا خام ترجمعہ ” فطری نظام “ ہے ۔
تاؤمت یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ انسان کو ” تاؤ “ کے خلاف عمل نہیں کرنا چاہیے ۔ بلکہ اس کی اطاعت کرنی اور اس سے ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے ۔ یعنی طاقت کے حصول کی فعال کاوش یا اس کا اطلاق نہیں ہے جتنا احمقانہ اور بے کار ۔ ” تاؤ “ کومات نہیں دی جاسکتی ۔ اس سے موافقت پیدا کرنے میں ہی انسان کی بھلائی ہے ۔ ( تاؤمت کا پیرو کاریہ کہے گا کہ پانی جو لامحدود طور پر نرم ہے ‘ جوبلا احتجاج نشیب میں بہتا ہے اور کمزور ترین قوت کا بھی بلامزاحمت ردعمل پیش کرتا ہے ۔ سویہ ناقابل فنا ہے ۔ جبکہ مضبوط ترین چٹانیں بھی سیل وقت کے آگے بے بس ہیں ) ۔
ایک انسان کے لیے سادگی اور فطری پن قابل ترجیح ہے ۔ تشدد سے اجتناب کرنا چاہیے ‘ اور دولت اور مرتبت کے حصول کی کاوش ناجائز ہے ‘ دنیا کی اصلاح کی کوشش بے کار ہے ‘ بلکہ اس کی قدر کی جانی چاہیے ۔ حکومتوں کے لیے ایک غیر عمل پذیر حکمت عملی بہترین حکمت عملی ہے ۔ متعدد آئین پہلے سے موجود ہیں ۔ مزید قانون وضع کرنا یا پرانے قوانین کو سخت بنانا ‘ عموماََ معاملے کو بدترین بنا دینے کے مترادف ہے ۔ زیادہ خصولات ‘ حکومتی پر جوش منصوبے اور جنگیں ‘ یہ سب کچھ تاؤمت فلسفہ کی روح کے منافی ہے ۔
چینی روایت کے مطابق ” تاؤتی چنگ “ کا مصنف راؤتسو تھا ۔ جو غالباََ کنفیوشس کا کہن سال ہم عصر تھا ۔ کنفیوشس چھٹی صدی قبل مسیح میں پیدا ہوا ۔ اس کے اسلوب اور موضوع کے پیش نظر چند جدید ماہرین کا خیال ہے کہ ” تاؤتی چنگ “ اسی دور میں لکھی گئی ۔ کتاب کی تصنیف کے اصلی دور کے متعلق علماء میں اختلاف رائے موجود ہے ۔ ” تاؤتی چنگ “ میں کسی خاص شخص ‘ مقام ‘ تاریخی یا تاریخی واقعہ کا ذکر موجود نہیں ہے ) تاہم 320قبل مسیح اس حوالے سے درست اندازہ ہے ۔ اغلباََ اصل تاریخ سے اسی برس کم یا زیادہ ہوسکتے ہیں ۔
اس مسئلہ نے تاریخ اور حتیٰ کہ خود لاؤتسو کے وجود کے متعلق شکوک وشبات پیدا کیے ہیں ۔ چند ماہرین اس روایت کو مانتے ہیں کہ لاؤتسو چھٹی صدی قبل مسیح میں موجود تھا ۔ وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس نے ” تاؤتی چنگ “ کو تحریر نہیں کیا ۔ دیگر علماء کا خیال ہے کہ وہ شخص ایک فرضی کردار ہے ۔ میرے نقطہ نظر سے چند علماء ہی متفق ہیں ‘ میرے مطابق (1) لاؤتسو ایک حقیقی انسان تھا ‘ اور وہی ” تاؤتی چنگ “ کا مصنف تھا ( 2) وہ چوتھی قبل مسیح میں پیدا ہوا ‘ اور (3) روایت لاؤتسو کنفیوشس کا عمر رسیدہ ہم عصر تھا۔ فرضی ہے ‘ جسے بعد کے تاؤفلاسفہ نے کتاب کے مصنف کو تکریم دینے کی غرض سے اختراع کیا ۔
یہ بات اہم ہے کہ قدیم چینی مصنّفین جیسے کنفیوشس ( قبل مسیح 479۔551) ماؤتی ( پانچویں صدی قبل مسیح ) مینی یس ( قبل مسیح 289۔371) وغیرہ نے لاؤتسویا ” تاؤتی چنگ “ کا کہیں کوئی ذکر نہیں کیا ۔ تاہم چوانگ تسونے ‘ جو 300قبل مسیح کا ایک اہم تاؤ فلسفی تھا ‘ لاؤتسو کا بار بار ذکر کیا ہے ۔
جبکہ خود لاؤتسو کا پنا وجود ہی متنازعہ فیہ ہے ۔ ہم اس کے موجود سوانحی کوا ئف پر بھی اعتماد نہیں کرسکتے لیکن اس حوالے سے معتبر حوالے موجود ہیں کہ لاؤتسو شمالی چین میں پیدا اور فوت ہوا ‘ اپنی زندگی کا ایک حصہ اس نے ایک مورخ یا سرکاری عجاب خانہ کے مہتم کی حیثیت سے گزارہ ‘ اغلباََ وہ چاؤ شاہی خاندان کے دارلخلافہ ” لوینگ “ میں رہا ۔ لاؤتسو اس کا اصل نام نہیں تھا ۔ بلکہ یہ ایک خطاب تھا جس کا مطلب قدیم استاد “ ہے ۔ اس کی شادی بھی ہوئی اور ایک بیٹا ” لاؤتسونگ “ تھا ‘ تسونگ ” وی “ (Wei) نامی ایک ریاست میں سپہ سالاربنا ۔
اگرچہ تاؤمت بنیادی طور پر ایک بے دین فلسفہ ہے ۔ تاہم اس میں سے ایک مذہبی تحریک جنم پذیر ہوئی ۔ تاؤمت کا فلسفہ بنیادی طور پر” تاؤتی چنگ “ میں بیان کردہ تصورات پر مشتمل ہے ۔ تاؤمت جلد ہی متعدد تو ہمات اور عبادت سے آلودہ ہوگیا ‘ جن کا لاؤتسو کے افکار سے کوئی تعلق نہ تھا ۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ لاؤتسوہی ” تاؤتی چنگ “ کا اصل مصنف تھا ‘ تو پھر ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اس کی اثرات دیرپاتھے ۔ کتاب بہت مختصر ہے ( یہ چھ ہزار چینی الفاظ سے بھی کم پر مشتمل ہے ۔ سویہ ایک اخبار کے واحد صفحے پر ہی پوری آسکتی ہے ) لیکن اس میں سوچ کو ترغیب دینے کی بڑی طاقت موجود ہے ۔ تاؤفلاسفہ کے ایک بڑے گروہ نے اپنے تصورات کی تشکیل کے لیے اس کتاب کو نقطہ آغاز تصور کر کے پڑھا ۔
مغرب میں ” تاؤتی چنگ “ کنفیوشس کی تحریروں ‘ اس کے کسی پیرو کارفلسفی سے زیادہ معروف ہے۔ درحقیقت اس کتاب کے چالیس سے زائد تراجم انگریزی میں ہوئے ہیں ۔ بائبل کے علاوہ کوئی دوسری کتاب اس تعداد میں ترجمعہ نہیں ہوئی ۔
خود چین میں کنفیوشس مت عمومی طور پر ایک ممتاز فلسفہ رہا ‘ اور جس معاملے میں لاؤ تسو اور کنفیوشس کے افکار میں تضاد پیدا ہوتا ہے ۔ چینی عموماََ موخرالذ کر کی ہی پیروی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ تاہم کنفیوشس مت کے پیروکار لاؤتسو کو بڑی عزت کا درجہ دیتے ہیں ۔ کئی ایک مثالوں میں تاؤمت کے افکار کو بڑی سہولت سے کنفیوشس کے فلسفہ میں مدغم کردیا گیا ۔ سواس طور اس نے ہزاروں ان لوگوں کو بھی متاثر کیا ‘ جوخود کو تاؤمت کا پیروکار قرار نہیں دیتے ۔ اسی طور تاؤمت کا بدھ مت کے فلسفہ کے چینی ارتقاء میں بھی بڑا عمل دخل ہے ۔ خاص طور پر ” زین “ بدھ مت ہیں ۔ اگرچہ چند لوگ آج بھی خود کو تتاؤمت کے پیروکار قرار دیتے ہیں ۔ تاہم چینی فلاسفہ میں کنفیوشس ہی ایک ایسا فلسفی ہے جس نے انسانیت پر لاؤتسو کی حد تک گہرے اثرات مرتب کیے۔
Browse More Urdu Literature Articles
ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال
Doctor Allama Mohammad Iqbal
نکولس آگسٹ اوٹو
Nicholas
تسائی لون
Cai Lun
لوئیس پاسچر
Louis Pasteur
Urdu AdabAdab Nobal PraizPakistan K Soufi ShaairOverseas PakistaniMushairyInternational Adab
Arabic AdabGreek AdabBangal AdabRussian AdabFrench AdabGerman AdabEnglish AdabTurkish AdabJapanes AdabAfrican AdabEgyptian AdabPersian AdabAmerican Adab
National Adab
ApbeetiAfsanaMazmoonInterviewsAdab NewsBooks CommentsNovelLiterary MagazinesComics WritersAik Kitab Aik Mazmoon100 Azeem AadmiHakayaatSafarnamaKahawatainAlif Laila Wa LailaTaqseem E Hind