William Harvey 1578 To 1675 - Article No. 966

William Harvey 1578 To 1675

ولیم ہاروے 1675ء۔1578ء - تحریر نمبر 966

عظیم انگریز طبیعیات دان ولیم ہاروے جس نے”خون کی گردش“ اور دل کا فعل“ بیان کیا‘ انگلستان کے ایک قصبہ”فوک سٹون“ میں 1578ء میں پیدا ہوا۔

ہفتہ 10 اکتوبر 2015

عظیم انگریز طبیعیات دان ولیم ہاروے جس نے”خون کی گردش“ اور دل کا فعل“ بیان کیا‘ انگلستان کے ایک قصبہ”فوک سٹون“ میں 1578ء میں پیدا ہوا۔ہاروے کی عظیم کتاب ”حیوانوں میں اور دل اور خون کی حرکت پرایک تشریحی مقالہ‘1628ء میں شائع ہوئی۔یہ کتاب بحاطور پر علم عضویات کی تاریخ میں سب سے اہم کتاب مانی جاتی ہے۔یہ جدید علم عضویات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔
اس کی اصل اہمیت اس کے براہ راست انطباق کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اس بنیادی آگاہی میں مضمر ہے جو یہ انسانی جسم کے وظیفہ سے متعلق ہمیں فراہم کرتی ہے۔
آج ہمارے لیے یہ حقیقت کہ خون جسم میں گردش کرتا ہے‘ایک ایک عام سی بات ہے۔ہاروے کانظریہ ہمیں بالکل واضح اور سچا معلوم ہوگا۔لیکن جوبات آج ہمیں سادہ اور بین معلوم ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

وہ گزشتہ حیاتیات دانوں کے لیے اس طور واضح نہیں تھی۔

حیاتیات کے ممتاز مصنّفین اس طرح کے افکار بیان کرتے تھے(1) خوراک دل میں جاکر خون میں مبدل ہوجاتی ہے۔(2) دل خون میں حرارت پیدا کرتا ہے۔(3) شریانیں ہوا سے بھری ہوتی ہیں۔(4) دل ”بنیادی ارواح“ کوپیداکرتا ہے۔ (5)خون شریانوں اور رگوں ‘دونوں میں اترتا چڑھتا رہتا ہے‘کبھی یہ دل کی طرف بہتا ہے اور کبھی اس کی مخالفت سمت میں۔
دنیائے قدیم کاعظیم ماہر طبیعیات گیلن ایسا آدمی تھا‘جس نے ذاتی طور پر مردوں کی چیرپھاڑ کی اور دل اور خون کی نالیوں کابغور مشاہدہ کیاتھا۔
اسے کبھی گمان نہ گزرا کہ خون گردش کرتا ہے۔نہ ہی یہ خیال ارسطو کوآیا حالانکہ یہ اس کی دلچسپی کااہم مضمون تھا۔حتیٰ کہ اس کتاب کے شائع ہونے کے باوجود متعدد ماہر طبیعیات نے یہ نظریہ قبول نہ کیا کہ انسانی جسم میں خون شریانوں کے ایک محدود نظام میں مسلسل گردش کرتا رہتا ہے جبکہ دل اس کودھکیل کر متحرک کرتا ہے۔
ہاروے نے پہلے یہ نظریہ وضع کیا کہ خون کی گردش علم اعداد کے ایک سادہ حساب کے تحت ہوتی ہے۔
اس نے اندازہ لگایا کہ خون کی مقدار جوہر باردل کی دھڑکن کے ساتھ خارج ہوتی ہے‘وہ دو اونس کے قریب ہے۔جبکہ خون ایک منٹ میں72مرتبہ دھڑکتا ہے۔سادہ سے حساب کتاب سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ قریب540پاؤنڈ خون ہر ایک گھنٹے میں دل سے خارج ہوتا ہے۔لیکن یہ مقدار ایک عام انسانی جسم کے کل وزن سے بھی زیادہ ہے۔جبکہ خون کی کل مقدار سے توبہت زیادہ ہے۔
سوہاروے کو احساس ہواکہ وہی خون باربار دل سے خارج ہوتا رہتا ہے اور یہ گردش دائروی ہے۔یہ مفروضہ وضع کرنے کے بعد اس نے نوسال تجربات میں گزارے اور گردش خون سے متعلق تفصیلات اکٹھی کیں۔
اپنی کتاب میں ہاروے نے واضح طور پر بیان کیا کہ شریانیں خون کودل سے پرے لے جاتی ہیں جبکہ رگیں(Veins) اسے واپس دل میں لاتی ہیں۔خوردبین کی عدم موجودگی میں ہاروے خون کی باریک رگوں کودیکھنے سے قاصر تھا۔
خون کوباریک ترین نسوں سے شریانوں میں لاتا ہے۔تاہم اس نے صحیح طور پر ان کی موجودگی کی نشاندہی کی۔ان باریک ترین نسوں کواٹلی کے ماہر حیاتیات ”مالپسی نیمی“ نے ہاروے کی موت سے چند سال بعد دریافت کیا)۔
ہاروے نے یہ بھی کہا کہ دل کا فعل خون کورگوں میں جھٹکے سے خارج کرتا ہے۔اس اہم نقطے پر ہاروے کانظریہ درست تھا۔مزید یہ کہ اس نے تجرباتی شواہد کا ایک طومار کھڑا کردیاہے۔
اور اپنے نظریہ کے دفاع کے لیے براہین کادفتر کھول دیا۔ابتدااس نظریہ کی شدید مخالفت ہوئی۔اس کی زندگی کے آخری برسوں میں البتہ اسے مان لیاگیا۔
ہاروے نے علم الجنین(Embreyology) پر بھی کام کیا‘ جودوران خون سے متعلق اس کی تحقیقات کی نسبت کم اہم ہے‘تاہم وہ غیراہم نہیں۔وہ ایک محتاط محقق تھا۔اس کی کتاب ‘حیوانات کے عمل تولید پر ایک نظر“1651ء میں شائع ہوئی۔
اس نے حقیقی معنوں میں جدید علم الجنین (Embreyology) کاآغاز کیا۔ارسطو ہی کی مانند جس سے ہاروے بہت متاثر تھا‘اس نے قبل ازتجربہ تشکیل سازی کی مخالفت کی۔اس مفروضہ کے مطابق ایک جنین(Embreyo) اپنے ابتدائی مراحل میں بھی اس مکمل ڈھانچے کاحامل ہوتاہے‘جوبالغ انسان میں دیکھا جاسکتا ہے۔البتہ یہ نہایت کم تردرجہ پر ہوتاہے۔ہاروے نے بجاطور پر یہ دعویٰ کیا کہ ایک جنین کاحتمی ڈھانچہ بتدریج ارتقاء پذیر ہوتا ہے۔

ہاروے نے ایک دراز‘دلچسپ اور کامیاب زندگی گزاری۔نوجوانی میں اس نے کیمبرج یونیورسٹی کے ”کائیس کالج“ میں داخلہ لیا۔1600ء میں وہ طب کی تعلیم کے حصول کے لیے اٹلی میں”پیڈوا یونیورسٹی“ میں داخل ہوا‘جو اس دور کا بہترین طب کا ادارہ مانا جاتا تھا۔(یہ امرقابل غور ہے کہ اس دور میں گلیلیو اسی یونیورسٹی میں استاد تھا‘ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان دوونوں کی کبھی باہم ملاقات ہوئی تھی)۔
1602ء میں ہاروے نے پیڈوایونیورسٹی سے طب میں ڈگری حاصل کی۔پھر وہ انگلستان واپس آگیا۔ جہاں اس نے ماہر طبیعیات کے طور پر ایک طویل اور کامیاب زندگی گزاری۔اس کے مریضوں میں انگلستان کے بادشاہ جیمز اول اور چارلس اول‘ اور ممتاز فلسفی فرانسس بیکن جیسے لوگ شامل تھے۔ہاروے نے لندن میں ”کالج آف فزیشنز“ میں علم تشریح الابدان“ پر لیکچر دیے۔
وہ اس کالج کاایک بار صدر بھی منتخب ہوا۔(اس نے خودہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا)۔مزید برآں وہ لندن میں ”سینٹ بار تھولو میوزہاسپیٹل“ میں برس ہابرس تک ”چیف فزیشن“کے طور پر کام کرتا رہا۔جب 1628ء میں دوران خون پر اس کی کتاب شائع ہوئی تو وہ یورپ بھر میں مقبول ہوگیا۔ہاروے نے شادی کی مگر اس کی کوئی اولادنہ ہوئی۔1657ء میں وہ79برس کی عمر میں لندن میں فوت ہوا۔

Browse More Urdu Literature Articles