Majlis Fakhar Bahrain Baraye Faroog E Urdu - Article No. 2149

Majlis Fakhar Bahrain Baraye Faroog E Urdu

مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو - تحریر نمبر 2149

محترم شکیل احمدصبر حدی کی رہائش گاہ پر ادبی نشست کا انعقاد

جمعہ 11 اکتوبر 2019

روداد۔۔۔۔احمد امیر پاشا، بحرین
ادبی تنظیموں کے قیام اور غرض و غایت کی تاریخ پر تا حال کوئی معتبر مطبوعہ علمی حوالہ موجود نہیں ہے ، جس کی رہنمائی میں ان نشستوں اور اور زبان و علم کی ترقی کے لئے کوئی رہنما اصول متعین کئے جا سکیں، یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیمیں اپنے بانیان اور سرپرستوں کی علم دوستی کی بنیاد پر اپنا راہِ عمل مقرر کرتی ہیں۔
انہی کی ادبی بصیرت اور سماجی تپاک اس تنظیم کے لئے سازگار ماحول پیدا کرکے ان کی ترقی اور زبان کے فروغ کی راہیں ہموار کر تا ہے۔ابتدا میں توچند رفیقانِ علم و ادب اس کارِ ادب پروری میں ان کے ہم رکاب ہوتے ہیں تاہم بعد ازاں یہی ایک مختصر سا ادبی طائفہ ایک کاروانِ علم بن کر اپنی حدود ،ملکی یا بین الاقوامی سطح تک وسیع کر لیتا ہے، جیسا کہ نامور شاعر و گیت نگار مجروح سلطان پوری نے کہا تھا،
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
مجروح صاحب کا یہی شعر مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو کے ادبی ضمیر کی حیثیت رکھتا ہے۔

(جاری ہے)

اس شعر کی روحانی لطافتیں اس ادبی تنظیم کی بلند پروازی کا سبب ہیں۔۲۰۱۲ء میں اپنے قیام سے لیکر تا حال ، اس تنظیم کی تمام قابلِ ذکرنشستوں ، سیمیناروں اور عالمی مشاعروں میں اپنے استقبالیہ خطاب میں بانی و سرپرست، ، مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو،بحرین، محترم شکیل احمد صبر حدی نے اس شعر کا حوالہ ضرور دیا ہے ، جیسے یہ شعر اُن کی تنظیمی سوچ کی خشت اوّل ہو۔
واقعتاً ایسا ہے بھی۔ادبی تنظیموں اور پھل دار، درختوں میں کافی مماثلت ہوتی ہے۔شعراء عموماً زود رنج،اور ناقدین اکثر سنگ بردار ہوتے ہیں، اس ماحول میں ادبی مناقشت اور شاعر و غیر شاعرکی چشمک معمول کا عمل ہے، جس سے ادبی تنظیموں کی ترقی کا کا راستہ کافی نا ہموار ہو جاتا ہے، تاہم اس حوالے سے محترم شکیل احمد صبر حدی کی صلح جوئی، تحمّل،فیاضی اور تنظیمی بصیر ت کو داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے مروّجہ ادبی نا ہمواریوں کے باوجود مجلسِ فخرِ بحرین کے قیام کے بعد نہ صرف اس کی سمت کا تعین کیا بلکہ اس پر تمام شعراء و احبابِ علم کو یکجا بھی رکھا۔
اس ضمن میں انہوں نے ایک اچھوتا اور نتیجہ خیز لائحہِ عمل اپنا یاجس کی نظیر مملکتِ بحرین کی ادبی تاریخ میں عنقا ہے۔عالمی مشاعروں اور سہ ماہی طرحی نشستوں کے انعقاد کیساتھ ساتھ انہوں نے اپنی رہائش گاہ(رفع ویو) پراہلِ علم، شعراء، نقاداور علمائے زبان و ادب کو مدعو کر نے کا سلسلہ شروع کیا۔اس موقع پر ،پُر تکلف عشائیئے کا اہتمام کیا جاتا ہے، بایں ہمہ ان نشستوں میں ادب آشنا اور اہل علم و فن ، شعرو عروض، اس عمل سے وابستہ ادبی لطافتوں، نثر، تاریخ، ادب و سماجی یگانگت جیسے اعلیٰ موضوعات پر تحریری اور زبانی ،اپنی معروضات پیش کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ تنقیدو تفہیم کا دور ہو تا ہے جو ان علمی محافل کی افادیت کو دو چند کر دیتا ہے۔بانی و سرپرست مجلسِ فخرِ بحرین کی رہائش گاہ پرتسلسل سے منعقد ہونے والی ان نشستوں کا علمی محور ہاک و ہند کے عربی ادب کے معروف عالم و فاضل محترم ڈاکٹر شعیب نگرامی ہیں۔اُردو و عربی ادب، حدیث اور فقہِ اسلامی پران کا تبحرِ علمی اور مختلف مو ضاعات پر اُنکی فاضلانہ گفتگو شرکائے محفل کو ترو تازہ کر دیتی ہے۔
عالمی مشاعروں میں شریک شعرائے کرام اور دیگر علمائے ادب جب بھی بحرین آتے ہیں،وہ محترم شکیل احمد صبرحدی کی رہائش گاہ پر منعقدہ ان محافل میں شریک ہو کر دوگنا خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان محافل میں ادبی ترقی اور فروغِ ادب کے حوالے سے کار آمد مشاورت بھی مجلس کی کارکردگی میں مزید حسن پیدا کرتی ہے۔
۳ ،اکتوبر۲۰۱۹، بروز جمعرات، شب ساڑھے آٹھ بجے ایسے ہی ایک یادگارادبی عشائیے کا اہتمام محترم شکیل احمد صبر حدی کی رہائش گاہ پر کیا گیا۔
اس محفل میں شعرائے بحرین کے علاوہ ، جامعہ بحرین کے اساتذہ اوردیگر اہلِ علم نے شرکت کی۔اس محفل کی صدارت محترم ڈاکٹرشعیب نگرامی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض جناب خرّم عباسی نے ادا کئے۔نشست کے آغاز میں ڈاکٹر نگرامی کے فروغِ ادب اور اس حوالے سے مجلس کی کارکردگی کے سوال کے جواب میں محترم شکیل احمد صبرحدی نے عالمی مشاعروں کے سالانہ انعقادکے ضمن میں کہا کہ اُردو بلا شبہ ایک سماجی امانت ہے جو برّصغیر کی معاشرتی یکجہتی کا سب سے بڑا مظہر تھی اور اب بھی ہے، اس کی تاریخ مسلم اور غیر مسلم ادبّاء اور شعراء کے شاندار کردار سے جگمگاتی ہے اسی لئے عالمی مشاعروں کے انعقاد کے حوالے سے مجلس نے ایک سال کسی مسلم تو اگلے سال کسی غیر مسلم شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کر نے کے لئے عالمی مشاعروں کے انعقادکا ضابطہ مقرر کیا ہے تاکہ اس زبان کے ان چمکتے ستاروں کی ادبی خدمات کو آئندہ نسلوں کے لئے کما حقہ انداز میںجاگر کیا جا سکے۔
ان شعراء و ادبّاء کی زندگی اور شعری وراثت کو محفوظ کر نے کے لئے تصنیف و تالیف کا ایک الگ شعبہ قائم کیا گیا جس کی ذمہ داری ہندوستان میں جناب آصف اعظمی اور قطر سے معروف شاعر جناب عزیز نبیل کو سونپی گئی، یہ سلسلہ تا حال کامیابی سے جاری و ساری ہے، اس سلسلہ اشاعت کی پذیرائی اب ریاستی سطح پر ہو رہی ہے، گزشتہ عالمی مشاعرہ مجروح سلطان پوری سے منسوب کیاگیا تھا۔
اس حووالے سے ان کی شعری ار ادبی خدمات کو خراج پیش کر نے کے لئے ایک ضخیم کتاب ’’ مجروح فہمی ‘‘ مجلس کے شعبئہِ نشرو اشاعت کی شبانہ روز کاوشوں سے شائع کی گئی۔اس سے قبل مجروح صاحب کی حیات و شعری کمالات پر مستند مواد حاصل کر نے کے لئے ممبئی یونیورسٹی میں ددو روزہ سیمینار بھی منعقد کیا گیا ، س سیمینار میں معروف اساتذہ اردو نے اس حوالے سے اپنے مضامین پڑھے، ان مستند مضامین کو’’مجروح فہمی‘‘ کی شکل میں شائع کیا گیا ہے، میں نے اس دو روزہ سیمینار میں شرکت کی اور استقبالیہ بھی پیش کیا۔
ہم اس سے ایک قدم آگے بڑھے اور مجروح فہمی کی تلخیص ہندی زبان میں میں شائع کر کے صدر ہند جناب رام ناتھ کووند کو پیش کی۔صدرِ ہند نے مجلس کی ان کا وشوں کی بھرپورتائیدو تعریف کی اور اس سلسلے کو جاری رکھنے پر بھی زور دیا۔بانی و سرپرست مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردومحترم شکیل احمد صبر حدی ے مزید کہا کہ تمام عالمی مشاعروں میں شریک مہمان شعراء کے کلام کو ایک خوبصورت مجلّے کی صورت میں شائع کر کے اشاعتی سلسلے کو مزید معنی خیز بنا یا جا تا ہے۔
اس ضمن میں تربیتی اور ادبی مقاصد کے لئے عالمی مشاعرے کے لئے نامزد شاعر کے مصرعوں پر تین سہ ماہی طرحی نشستوں نے مقامی ادبی ماحول میں ادبی سرگرمیوں کو باوقار انداز میں فروغ دیا ہے۔میری رہاشء گاہ پر تنقیدی اور علمی نشستوں کا انعقاد بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے تاکہ مقامی ادبی ماحول میں شعری روایات کو افہام و تفہیم اور تنقیدو تعلیم سے مزید مضبوط کیا جائے۔
محترم شکیل احمد صبر حدی نے اس سارے ادبی سلسلے اور اس کی ترقی کے حوالے سے جناب اصف اعظمی ،جناب عزیز نبیل اور بحرین میں اپنے رفقائے کار کی کوششوں کو بھی سراہاآٓپ کی گفتگو کے بعد اس عشائیے میں مدعو کئے گئے مقامی شعراء نے اپنا کلام پیش کیا، ان شعراء کے چند منتخب اشعار قارئین کی نذر ہیں،
جناب احمد عادلؔ
ازل سے بے ثباتی کا گلہ تھا
مگر انسان خود کم حوصلہ تھا

ہر اک لمحہ رفاقت کا ہماری
دھنک کے سات رنگوں سے سجا تھا
جناب رُخسار ناظم آبادی
ترے لہجے میں جو ڈر بولتا ہے
کسی کا خوف اندر بولتا ہے

سگے کچھ اجنبی رہتے ہیں اس میں
توپاگل ہے اسے گھر بولتا ہے
احمد امیر پاشا
تجھے تو چاٹ گئی دھوپ دشتِ غربت کی
مجھے بتا ترے بچوں کا حال کیسا ہے ؟

ہر ایک گھر سے نکل آئے دل گرفتہ لوگ
اجاڑ بستی میں جشنِ وصال کیسا ہے؟
جناب طاہر عظیم
جتنا ہے فسردہ دل
اس سے کم اداسی ہے

عشق ،قابلِ تعظیم
محترم اداسی ہے
جناب ریاض شاہد
نظر نظر سے قدم سے قدم ملا کے چلے
ہے کوئی ہم سا جو کانٹوں پہ مسکرا کے چلے

زمین تنگ ہوئی اور زبان کاٹی گئی
لہو سے مقتل و زندان ہم سجا کے چلے
جناب سعید سعدی
آج ملا تو پُوچھ رہا تھا
کیا اب بھی کچھ ہو سکتا ہے

پھول جھڑیں جس کے ہونٹوں سے
وہ بھی خار چبھو سکتا ہے
جناب اسد اقبال
وہ سمجھتے ہیں کہا ان کا ہوا کرتا ہے
کتنی ہی دیر گماں کوئی رہا کرتا ہے

لاکھ تدبیر کریں آپ مگر یاد رہے
ایک تدبیر کوئی اس سے سوا کرتا ہے
جناب مانی عباسی
اب ایسا ظلم تو اے حضرتِ صیّاد مت کیجے
قفس سے عشق ہے ہمکو ہمیں آزاد مت کیجئے

اجی قبلہ زمانہ منکرِ توحید سمجھے گا
خدا کا گھر ہے دل ، دل میں صنم آبادمت کیجے

Browse More Urdu Literature Articles