Ba Yaad Shams Ur Rehman Farooqi - Article No. 2564

''بیاد شمس الرحمٰن فاروقی'' - تحریر نمبر 2564
مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو کے زیرِ اہتمام ''بیاد شمس الرحمٰن فاروقی'' آن لائن طرحی نشست کا انعقاد
پیر 2 اگست 2021
گزشتہ صدی کے نصف آخر اور اس صدی کے ابتدائی دو عشروں پر محیط ادبی خدمات اور اپنے منفرداسلوب و نظریات کی بدولت شمس الرحمٰن فاروقی اُردو ادب میں ایک نابغہ روزگار مفکر اور اصلاح کار کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔فاروقی صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اُردو کے علمی مزاج کی نہ صرف تزئین و آرائش کی بلکہ اس کے ثقافتی مزاج کی تشریح اس مدلل انداز میں کی کہ سیاسی قوت نہ ہونے کے باوجود اس زبان کی عمرانی آفاقیت کو اس زبان کے ناقدین سے بھی تسلیم کرایا۔ شمس الرحمٰن فاروقی ان معدودِدِ چندمشاہیرِ اردو میں سے ہیں جنہوں نے استدلال اور تجدد سے اردوکے احیاء کو ایک عالمی تحریک کا قلب عطا کیا ۔
اپنے عملی مزاج کے اعتبار سے مجلسِ فخرِ بحرین بھی احیائے اُردو ہی کی ایک تحریک ہے، اس لحاظ سے فاروقی صاحب کی فکری میراث کی آبیاری اور اس کی دیکھ بھال میں مجلس اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
(جاری ہے)
اس ضمن میں مجلس فخرِ بحرین کے بانی و سرپرست شکیل احمد صبرحدی کی ادبی جدت پسندی اور فروغِ اُردو کا بے لوث جذبہ بنیادی محرک کا کردار ادا کر رہا ہے، بلاشبہ ان کی سرپرستی میں مجلسِ فخرِ بحرین فاروقی صاحب کی لازوال شخصیت کے مختلف پہلووں اور خدمات کے منفرد زاویوں پر علم و قلم آرائی کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔
اس سے قبل بھی مجلس ،زبانِ اُردوکی نامور شخصیات کی گرانقدر خدمات پر مثالی تحقیق و اشاعت ، عالمی مشاعروں اور مقامی شعری نشستوں کے انعقاد کا قابلِ فخر کارنامہ سر انجام دے چکی ہے، ان میں شہر یار، فراق،عرفان صدیقی،پنڈت آنند نارائن ملا ، خلیل الرحمٰن اعظمی ،برج نارائن چکبست اور مجروح سلطان پوری جیسے عظیم شعرائے کرام کے نام شامل ہیں۔شمس الرحمٰن فاروقی کی وفات نے فروغِ و احیائے اُردو کی اُن کوششوں کو شدید زک پہنچائی جو بالخصوص ان کی ذات سے منسلک تھیں، بادی النظر میں عہدِ نو میں اردو ادب کا اجلا پن فاروقی صاحب کی انتھک کاوشوں کا بھی مرہونِ منت ہے، اس لحاظ سے ان کی وفات سے پیدا ہونے والے علمی و ادبی خلا کو مجلس فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو نے فوری طور پر محسوس کرتے ہوئے امسال ان کے لئے تین طرحی نشستوں، ایک عالمی مشاعرے اور ان کی ذات و صفات کے حوالے سے ایک مبسوط تصنیف و مجلے کی اشاعت کا اعلان کیا ہےجو کہ بلا شبہ مجلس کے قدو قامت کی عالمی تنظیم کی طرف سے فاروقی صاحب کے شایان شان خراج ِ عقیدت پیش کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔پہلی آن لائن طرحی نشست "بیاد شمس الرحمٰن فاروقی" کا اہتمام 30جولائی 2021ء بروز جمعہ کیا گیا۔اس طرحی نشست کی صدارت کراچی (پاکستان) سے نیلگوں شعری تجلیات کے معروف شاعراجمل سراج نے کی جبکہ مہمانِ خاص عربی ادبیات کے فاضل سکالر ڈاکٹر شعیب نگرامی تھے۔ اس طرحی نشست کے لئے شمس الرحمٰن فاروقی کی دو غزلوں کے مصرعوں کو مصرعہ طرح کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، پہلا مصرعہ تھا، " ''شورِ طوفانِ ہوا ہے بے اماں سنتے رہو " جبکہ دوسرا مصرعہ " ادھر سے دیکھیں تو اپنا مکان لگتا ہے" تھا۔ اس نشست کی نظامت ، حرف و شعر کے شناور خرم عباسی نے کی، انہوں نے تعارفی کلمات میں مرحوم شمس الرحمٰن فاروقی کی خدمات و کمالات کا جامع تذکرہ کرتے ہوئے انہیں فروغِ اُردو کا ایک پورا عہد قرار دیا۔عباسی صاحب نے اس مرتبہ اپنے اسلوبِ نظامت کو فاروقی صاحب کے اشعار کی بجائے ان کے تابناک اقوال سے جلا بخشی۔ شکیل احمد صبرحدی نے نشست میں شریک شعراء اور اس کے آن لائن ناظرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شمس الرحمٰن فاروقی مرحوم کو سپاسِ نقدو نظر کے حوالے سے مجلس کے آئندہ لائحہ عمل کا اجمالی ذکر کیا۔ انہوں نے ایک طویل عرصے کے بعد اس نشست کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلے کو تواتر سے جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔اس طرحی شعری نشست میں شریک شعرائے عظام کے کلام سے منتخب اشعار قارئین کی نذر ہیں۔
اجمل سراج۔ کراچی (پاکستان)
کنارے جس طرح دریا کے ساتھ چلتے ہیں
جو چاہتے ہیں وہی کچھ دکھائی دیتا ہے
سب اہنے ذوقِ تماشا کے ساتھ چلتے ہیں
جواز ہی نہیں رکھتے کوئی بھٹکنے کا
جو تیرے نقشِ کفِ پا کے ساتھ چلتے ہیں
کسی کی پہلی محبت کا مان لگتا ہے
بڑے غرورو تکبر سے بات کرتے ہو
تمھارے سر کو کوئی آسمان لگتا ہے
کچھ ستارے ادھر لگے ہوئے ہیں
چاند کو آئینہ دکھانا ہے
شام سے شیشہ گر لگے ہوئے ہیں
ترا فراق مجھے امتحان لگتا ہے
تمھارے قرب سے بڑھ جائے حوصلہ میرا
تمھارا ساتھ مجھے سائبان لگتا ہے
زمین زادے ترا امتحان لگتا ہے
جفاکرے تو نہیں اس سا دوسرا لیکن
کبھی کبھار وہی مہربان لگتا ہے
شورِ طوفانِ ہوا ہے بے اماں سنتے رہو
خامشی کا حکم تو ہے بس رعایا کے لئے
جو بھی فرماویں ہمارے حکمراں سنتے رہو
تمھارا شہر ہی ہندوستان لگتا ہے
اسیر جسم نہیں ذہن ہو گیا شاید
کہ اب قفس بھی ہمیں آسمان لگتا ہے
ظفر بیگ (انڈیا)
ادھر سے دیکھیں تو اپنا مکان لگتا ہے
وہ وقت آئے گا دشمن بھی ہمنوا ہوگا
ابھی تو دوست بھی ہر بد گمان لگتا ہے
یہ حوصلہ تو ہمارا نشان لگتاہے
بکھر گئی ہیں ہماری تمام تہذیبیں
ہر ایک لمحہ یہاں ترجمان لگتا ہے
بولتا ہے ان دنوں شہرِ اماں سنتے رہو
ایک تم ہی تو نہیں ہو مبتلائے رنج و غم
ہر طرف ہے اک صدائے الاماں سنتے رہو
Browse More Urdu Literature Articles

محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar

حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'

جہیز
Jaheez

دلکش وادی کا دلنشیں شاعر ۔۔احمد ستی
Dilkash Waadi Ka Dilnasheen Shair - Ahmad Satti

عین موت
Ain Mot

فن وثقافت کا فروغ اور ملتان آرٹس کونسل
Faan O Saqafat Ka Faroogh Aur Multan Arts Consil

ذہن اجالا
Zehen Ujala

”مذہب نہیں سکھاتا․․․․․“
Mazhab Nahi Sikhata