لاچار حاکم وقت!!!

Lachar Hakim E Waqt

عائشہ نور ہفتہ 14 ستمبر 2019

Lachar Hakim E Waqt
وزیراعظم عمران خان " تبدیلی کا نعرہ " بلند کرکے برسراقتدارآئے تھے۔ ایک برس بیت گیا مگرکوئی تبدیلی کہیں بھی نظرنہیں آئی۔ ہم مانتے ہیں کہ ہمارا وزیراعظم بدعنوان نہیں ہے مگرہمیں یہ بھی مانناہوگا کہ عمران خان اپنے منشورپرعملدرآمدنہیں کرپارہے ہیں۔ اس کی وجوہات کوسمجھنے کیلئے ماضی قریب کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ جس زمانے میں عمران خان حزبِ اختلاف کا کردار اداکررہے تھے اورسابقہ حکمرانوں کیخلاف زورداراحتجاجی دھرنے اسلام آبادکے ڈی چوک میں ہوئے تووہاں عمران خان کے علاوہ ڈاکٹرطاہرالقادری کا دھرنا"انقلاب مارچ " بھی آپ کو یاد ہی ہوگا،زیادہ پرانی بات نہیں ہے!!! 
ڈاکٹرطاہرالقادری کا مئوقف تھا کہ موجودہ فرسودہ نظام کا خاتمہ کیے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں جبکہ عمران خان کہتے رہے کہ نظام بدلنے کی کیاضرورت ہے؟؟؟ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ وہ موجودہ نظام کوہی ٹھیک کرکے دکھائیں گے۔

(جاری ہے)

یہ وہ وقت تھا جب عمران خان شہدائے ماڈل ٹاون کے ورثاء سے اظہارِیکجہتی کرتے پائے گئے اور وعدے کیے کہ شہدائے ماڈل ٹاون کے ورثاء کوانصاف ضروردلائیں گے۔ مگروہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے؟؟؟ ڈاکٹرطاہرالقادری توعمران خان کے برسراقتدارآنے کے بعد عملاً سیاست سے کنارہ کش ہوگئے مگر آپ کی کہی ہوئی اکثروبیشتر باتیں عمران خان کے دورِحکومت میں جلد ہی حقیقت کا روپ دھار گئیں۔

وزیراعظم عمران خان کو اس فرسودہ نظام نے اپنے شکنجے میں ایسا جکڑا کہ کپتان بے بسی کی تصویربن گیا۔ ہمارا کپتان نامعلوم وجوہات کی بنا پر شہدائے ماڈل ٹاون کے لواحقین سے کیے گئے وعدے بھول گیا۔ پھریوں ہوا کہ سانحہ ساہیوال وقوع پذیرہوگیا مگرہمارا کپتان برسراقتدار ہونے کے باوجود سانحہ ساہیوال کے ذمہ داران کوکیفرکردار تک نہ پہنچا جاسکا۔

اور تحریک اانصاف کی حکومت میں متاثرین سانحہ ساہیوال کو انصاف نہ مل سکا۔ اور تواور ہمارا کپتان پنجاب پولیس کی اصلاح احوال کیلئے " تھانہ کلچر" بدلنے میں بھی تاحال کامیاب نہ ہوسکا۔ یہ آخر ہو کیا گیا ہے ہمارے کپتان کو؟؟؟ ہمارے کپتان کو اصلاحات نافذکرکے اس نظام کوٹھیک کرنا تھا،مثالی نظام عدل قائم کرنا تھا،معیشت بھی ٹھیک کرنی تھی۔

کون لوگ اوتسیں،جووزیراعظم کی ٹیم میں شامل ہیں اورالٹے سیدھے مشورے ہمارے کپتان کودیتے ہو۔کبھی معیشت ٹھیک کرنے کیلئے " انڈہ مرغی " پلان جیسے منصوبے بناکردیتے ہیں توکبھی IMFکا پروگرام لینے کے فضائل بیان کرتے ہیں مگر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کیلئے کڑے احتساب کیلئے نیب قوانین میں نقائص دورکرنے کیلئے کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔

البتہ " پلی بارگین " اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جیسے ناقص اقدامات اٹھالییگئے۔ لوگ آٹیمیں نمک برابرپلی بارگین کرکے بچ نکلتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے کالا دھن بھی سفیدہوتانظرآرہاہے۔
پھرایک ذہنی مریض ATM چور " صلاح الدین " پنجاب پولیس کے بیہمانہ تشدد کی بھینٹ چڑھتا بھی دیکھا گیا۔ " صلاح الدین " ان درندوں سے پوچھتا رہا کہ " انہوں نے مارنا کہاں سے سیکھاہے؟؟؟ "۔

ہمارے کپتان نے توریاست مدینہ بنانے کے دعوے کررکھے ہیں۔ " صلاح الدین " کی تشددزدہ نعش ریاست مدینہ کے دعویداروں کیلئے سوالیہ نشان چھوڑگئی ہے۔ "
 صلاح الدین " منہ چڑایا کرتا تھا نا!!! تووہ منہ چڑا کرگیا ہے میرے دیس کے اندھے قانون اور گونگے بہرے اپاہج فرسودہ نظام کو!!! اورتواور راتوں رات ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بڑی مچھلیوں کوواجب الادا 208 ارب روپے معاف کردئیے گئے مگرہمارے کپتان کو اگلے روزٹی وی سے پتا چلتا ہے تو ہمارا کپتان ایک اور نوٹس لے لیتاہے۔

ہمارے کپتان نے سانحہ ساہیوال کا بھی نوٹس لیاتھانا!!! پھرکیا نتیجہ نکلا؟؟؟ ہمارا کپتان فرسودہ نظام کے ہاتھوں اتنابیبس اورلاچارہوچکاہے کہ وہ ٹی وی پرخبر دیکھ کرنوٹس لینے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا۔ ایسا بے بس اورلاچارحکمران تصور ریاست مدینہ پر عمل پیرا نہیں ہوسکتا۔ یہ بے بس اورلاچارحکمران جواپنے ملک میں غریبوں کو انصاف نہیں پارہا, اس سے جارحانہ کشمیرپالیسی کی توقع رکھنا بیکار ہے۔

ہمارا کپتان مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی مظالم کیخلاف احتجاج ہی کرسکتا ہے!!!
لوگ کہتے ہیں کہ احتجاج تو بے بس اور لاچارلوگ کرتے ہیں وہ واقعی بالکل ٹھیک کہتے ہیں ۔ ایک ماہ گزرچکا اور ہمارا کپتان عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگرکرنے میں لگاہے۔ تووہ پوچھنا تھا کہ ابھی ٹھیک سے اجاگر ہوا کہ نہیں؟؟؟ عالمی ضمیر بیدارہوا کہ نہیں؟؟؟ اگر یہ سب ہوگیا ہو توہمارے کپتان کو بہت بہت مبارکباد مگرٹھہرئیے جناب آپ ابھی تک مقبوضہ کشمیر سے کرفیوتک نہیں اٹھواسکے تو مبارکباد کیسی؟؟؟ آپ رواں ماہ کے آخر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیرکا مقدمہ لڑنا چاہتے ہیں۔

مگریادرہے کہ وہ صرف ایک سیاسی فورم ہے،وہاں دھواں دارتقاریر سے کچھ حاصل نہیں ہونیوالا ہے, باقی آپ کی مرضی!!! آپ کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے تھی کہ بھارت کوکرفیواٹھانے کیلئے آمادہ کرتے۔ اب بھی وقت ہے, اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کا انتظارکرنے کی بجائے اگرہوسکے توکوئی عملی اقدامات اٹھائیں۔ آپ وہاں سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں جبکہ خود آپ سینہ توبھارتی فضائی حدود بند ہوسکیں اور نہ افغان ہند تجارتی راہداری!!! سچ تویہ ہے کہ کپتان سے اپنا گھر بھی ٹھیک سے سنبھالا نہیں جارہا ہے۔

آپ کیسے عالمی سطح پر کشمیرکا مقدمہ لڑیں گے جبکہ آپ کی اپنی پنجاب پولیس غریبوں کیخلاف ریاستی جبرواستبداد کی بدترین مثال بن چکی ہے۔ 
معیشت آپ سے سنبھل نہیں پائی وہ تو آپ نے IMF کی جھولی میں ڈال دی ہے۔ جس کاخمیازہ پاکستان کے غریب مہنگائی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ وقت اور حالات نے ثابت کردیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا مئوقف درست تھا کہ "فرسودہ نظام اور دھاندلی زدہ انتخابات کے رہتے آپ کبھی کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے"۔ لہذاٰ ہمارے کپتان کو اپنے سیاسی نظریات پرنظرثانی کی ضرورت ہے۔ لہٰذا نظرثانی کیجئے,اور اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیجئے جنابِ وزیراعظم۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :